آ ڈائینگ آف کالونیلزم پر ایک نظر
تحریر: واھگ بُزدار
دی بلوچستان پوسٹ
ڈاکٹر فرانز فینن 1925 کو مارٹینک کے متوسط طبقہ کے گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ جو کہ اس وقت فرانس کے ایک کالونی تھی۔ ایک نوآبادکار ، نوآبادیاتی کے لوگوں سے کس طرح سے پیش آتا ہے۔ اس کا مطالعہ فینن نے اپنے بچپن سے کیا کہ وہاں پر سفید لوگ کس طرح سے سیاہ فام لوگوں سے سلوک کرتے ہیں۔ سیاہ فام لوگ اپنی ہی سرزمین پر درندگی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد فینن کو اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس بھیج دیا گیا۔
فینن نے اپنے طالب علمی کے دوران ہی اپنی پہلی کتاب “Black skin white masks” لکھی یہ اس کی مشہور کتاب ہے۔ جو کہ زیادہ تر اس کے اپنے زندگی کے تجربات پر لکھی گئی ہے۔ فینن اس کتاب میں سیاہ اور سفید کے رشتے اور ان کے تعلقات اور ان کے نفسیات کے بارے میں بتاتا ہے۔ فینن نے 1953 میں اپنی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد الجزائر کے کسی ہسپتال میں بطور ماہر نفسیات کے اپنے زندگی کا آغاز کیا۔ اس دوران فینن کی ملاقات مختلف الجزائری باشندوں سے ہوتی ہے۔ جو مختلف نفسیاتی مسئلوں کا شکار تھے۔ فینن جس ہسپتال میں کام کرتا تھا۔ وہاں پر فرانسیسی فوج کے طرف سے مختلف الجزائری مریضوں کو علاج کے غرض سے بھیجا جاتا تھا۔ جو کہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار تھے۔ اس دوران فینن نے الجزائر کے گوریلا فائٹرز کی تحریک کا مطالعہ کیا اور خفیہ طور پر ان کی مدد بھی کی۔ فینن نے 1956 میں نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور الجزائر مجاہدین سے جا ملے اور ان کے ساتھ ہی دشمن کے خلاف برسر پیکار رہے۔
1959میں فینن کی دوسری کتاب “A dying colonialism” شائع ہوئی۔ اس دوران فینن نے الجزائری محاہدین اور لوگوں کو نفسیاتی طور پر مضبوط کرنے کے لیے لیکچرز دئیے اور لوگوں کو فرانسیسیوں کے خلاف جنگ پر اکسایا۔
1961 میں فینن کینسر کو تشخیص لاحق ہوتی ہے اور وہ اس دوران اپنی کتاب “The wretched of the earth” پر کام کر رہے تھے۔ فینن نے اس دوران مجاہدین سے کہا کہ ان کو محاذ پر جانے کی اجازت دی جائے لیکن فینن کو یہ کہ کر محاذ پر جانے سے روک دیا گیا کہ قوم کو آپکی محاذ پر جانے سے زیادہ آپکی دانشوری کی ضرورت ہے۔
اس دوران واجہ فینن کو کینسر کے علاج کے لئے واشنگٹن بھیج دیا گیا۔ واجہ فینن نے بالآخر 6 دسمبر 1961 کو واشنٹگٹن میں وفات پایا۔ فینن ایک دانشور، ایک مزاحمت کار، ایک لکھاری ،ایک ڈاکٹر سب سے بڑھ کر ایک قوم پرست اور انسان دوست تھے۔ تاریخ فینن کو ایک مزاحمت کار کے طور پر یاد کرتی ہے۔
یہ کتاب جس پر میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ اصل میں اس وقت کے الجزائر کے سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ جو کہ اس وقت الجزائر اور کے لوگوں کی حالت پر واجہ فینن نے لکھی ہے۔ اصل میں یہ کتاب مختلف بابز(chapters) پر مشتمل ہے۔ جو کے نیچے دی گئی ہے۔ جس کو میں نے اپنے حساب سے اور اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
الجزائر کی جنگ آزادی میں عورت کا کردار
اگر کسی معاشرے کی تہذیب و ثقافت ،مذہب، تعلیم و تربیت یا اس کے باقی سماجی پہلو کو دیکھا جائے تو وہاں عورت کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ خواتین نے اپنی بساط کے مطابق سماج اور اس میں آنے والی تبدیلیوں کے لئے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھا۔ اگر ہم جنگوں کی تاریخ کو اٹھائیں۔ تو وہاں بھی خواتین کی ایک بڑا کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ چاہے وہ معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی یا مذہبی حوالے سے ہوں۔
الجزائر کی جنگ آزادی میں بھی عورتوں کا ایک عظیم کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہ وہاں پر الجزائری خواتین نے اپنے آپ کو گھریلوں اور فرسودہ چنگلوں سے آزاد ہو کر آزادی کی جنگ میں ایک عظیم کردار ادا کیا۔
فرانز فینن اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ جنگ آزادی کے دوران فرانسیسی فوج نے الجزائری خواتین کو مختلف طرح کے جسمانی اور ذہنی اذیتیں دے کر تحریک سے دستبردار کرانے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے دشمن کی ہر اذیتوں کو خوشی سے قبول کیا۔ بقول فینن کہ ریاستی خفیہ اداروں نے عورتوں کو جہدوجہد سے دور رکھنے کے لیے مختلف NGO,sکا سہارا لیا۔ تاکہ عورت کو مختلف قسم کی سر گرمیوں میں مصروف رکھا کر ان کے توجہ کو جہد آزادی سے دور کیا جاسکے۔
واجہ فینن لکھتا ہے کہ جب فرانسیسی استعمار نے الجزائر پر قبضہ کیا۔ تو وہاں پر تشدد اور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ مرد و زن الجزائر کے کسی بھی حصے میں محفوظ نہیں تھے۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ تاکہ لوگوں کے اندر ڈر کی فضاء قائم کر کے لوگوں کو جہدوجہد سے دور کیا جا سکے۔
اس دوران الجزائر لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے جدوجہد آزادی کے محاذ پر خواتین کو سیاسی اور مسلح حوالے سے تربیت دی تھی۔ تاکہ الجزائر کے گاؤں اور شہروں میں اپنے نیٹ ورک کو وسیع کر کےدشمن کے خلاف جنگ میں مزید شدت لائی جا سکے۔
اس دوران الجزائر کے خواتین نے روایتی طور پر اپنی زمہ داریاں سنبھالیں جن میں پہاڑوں کے دامن میں موجود گوریلا فائٹرز کی جہد آزادی کی جنگ میں لڑنے والے گوریلا جنگجو کی مرہم پٹی کرنا اور ان کو زندگی کی دوسری سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو وسیع کرنا تھا۔ اس دوران خواتین نے دونوں محاذ پر اپنے جوہر دکھانا شروع کر دیا۔ خواہ وہ جنگ کا میدان ہو یا سراغ رسانی کا امتحان ہو وہاں خواتین نے ایک زندہ کردار ادا کیا تھا۔
عورت الجزائری مجاہدین کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرتی تھیں۔ بقول فینن کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ فرانسیسی افواج نے پورے علاقے میں اپنے چیک پوسٹ لگا دیئے اور اور ہر الجزائری مرد کی بہت ہی باریک بینی سے تلاشی لی جاتی تھی۔ اس دوران یہ زمہ داری ان خواتین کی تھی کہ وہ شہر کے کونے کونے میں الجزائری مجاہدین کو ہتھیار فراہم کرتی تھیں۔
عورت جب بازار میں چلتی ہوئی نظر آتی تھی تو وہ حسن و جمال کا پیکر تھی۔ کسی کو اس پر شک نہیں ہوتا تھا۔ لیکن حقیقت میں اس کے پرس میں پسٹل اور ہینڈ گرنیڈ اور بم ہوتےتھے جن کا مقصد دشمن پر حملہ کرنا تھا۔
یہاں پر فینن ایک اصطلاح “camouflage” استعمال کرتا ہے جس کا مطلب بھیس بدل کر دشمن پر حملہ کرنا ہے۔ الجزائری خواتین نے وقت و حالات کے مطابق کچھ وقت کے لئے اپنی لباس کو خیرآباد کہہ دیا اور فرانسیسی لباس کو اپنایا جس سے ان کے درمیان آسانی سے جا کر ان کو نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔
انقلابی خواتین نے اس میدان میں کبھی سستی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی ان کو مشن کی تکمیل کے لیے بلایا جاتا۔ تو وہ اس پر لبیک کہتی۔ اس دوران وہ فطری طور پر اس قدر ذہین اور پختہ ہوگئی۔ کہ ناخواندگی کے باجود بھی وہ اپنی کام کو ایک اچھے طریقے سے پورا کرتی تھی۔ بقول فینن کے الجزائری خواتین پہاڑوں میں رہنے لگی اور وہاں پر وہ الجزائر کے گوریلا جنگجو کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر لیا۔
فینن یہاں پر ایک عورت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک الجزائری مجاہد جنگ کو خیرآباد کہہ کر جب گھر آیا اور اس نے اپنی زوجہ سے اس بات کا ذکر نہیں کیا اور کچھ دونوں بعد اس کی بیوی کو معلوم ہوا کہ یہ محاذ سے بھاگ کر آیا ہے۔ اس کی زوجہ کہتی ہے میں ایک ایسے انسان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرونگی جس نے دوشمن کہ سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہوں۔
ریڈیو کا کردار:-
قوموں کی ترقی اور تنزلی میں میڈیا نے ایک بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور کر رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراج یا قبضہ گیر نے اپنی سامراجی کرتوتوں کو مزید منظم اور لوٹ کھسوٹ کے بازار کو گرم رکھنے کے لئے مختلف قسم کے ایجادات کا سہارا لیا اور ان کو مظلوم اور محکوم قوموں پر ان کے استحصال کے طور پر استعمال کیا تاکہ ان کو نفسیاتی حوالے سے غلام بنایا جا سکے۔
فرانز فینن اپنی اس کتاب میں ریڈیو کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کس طرح سے فرانسیسی استعمار نے ریڈیو کا استمال کرکے الجزائر کے لوگوں کو نفسیاتی حوالے سے غلام بنایا اور ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کیا ہے۔ فرانسیسی استعمار نے ریڈیو کے ذریعے الجزائری مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔ جس سے الجزائری عوام کے اندر الجزائری جنگجووں کے خلاف بددلی و بد دہینی اور مایوسی پیدا ہوئی۔ فرانسیسی استعمار نے ریڈیو کے ذریعے الجزائری عوام کو نفسیاتی حوالے سے کمزور یا غلام بنانے کے لیے مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جس کا مقصد ایک تحریک، ایک جہدوجہد اور ایک نظریہ کے خلاف لوگوں کو بددل اور مایوس کرنا تھا۔
بقول فینن کے فرانسیسی ریڈیو نے ہر وقت الجزائر کے عوام کی کمزوریاں بیان کی اور اپنے اس ریڈیو کے ذریعے ریاست اور اس کے کارناموں کو سراہا جاتا تھا۔
اس دوران الجزائر کے عوام نفسیاتی حوالے بیماریوں کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو بے بس اور کمزور سمجھا اور ہر ایک مسئلے کے حل کو بیرونی طاقت پر ڈال کر ہر قسم کے سیاست سے دستبردار ہو گئے۔ بقول فینن کے قبضہ گیر کا اصول ہے کہ وہ غلام قوم کو ہر طرح سے کمزور کرنے کے لیے مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتاہے اور جس سے لوگوں کے اندر ایک ڈر اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ جس سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے. بلوچی کا ایک مثال ہے کہ “ترس ہستی ء نیست کنت”۔ اس دوران یہ خبریں بھی چلی جاتی تھی کہ فرانسیسی فوج نے فلاں علاقے میں دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ جو کے عوام کے لوٹ کھسوٹ میں ملوث تھے اور ان کا تعلق الجزائری مجاہدین سے بتایا جاتا تھا۔ اس کا واضح مقصد لوگوں کو آزادی پسندوں کے خلاف بہکانا تھا۔
جب لبریشن فرنٹ نے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو انہوں نے اپنے عوام کو مایوس اور الجزائر کے گوریلا جنگجو کے خلاف پایا جو فرانسیسی فوج کی طرف سے کی گئی “demoralizstion” سے وجود میں آئی تھی. تو اس دوران الجزائر لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے سوچا کہ اپنے عوام سے جڑے رہنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں۔ جس سے لوگوں کے اندر مایوس کو ختم کر کے ان کو اپنی تحریک اور جہدوجہد کے بارے میں صحیح طور پر سرپدی دی جا سکے۔ کیونکہ یہ تمام چیز گوریلا حکمت عملی کے لئے اشد ضروری ہیں۔ اس دوران الجزائری مجاہدین نے اپنے لئے ایک ریڈیو سٹیشن بنایا۔ جسکا مقصد یہ تھا اپنے پیغامات کو الجزائر کے عوام تک پہنچائے جا سکیں۔ تاکہ لوگوں کو جہدوجہد آزادی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات دی جا سکے اور دوشمن کے پروپیگنڈے کو رد کیا جا سکے۔
اس عمل سے الجزائر کے لوگوں کے اندر ایک نئی امید پیدا ہوئی، جس نے عوام کو ایک نئی زندگی اور سوچ اور فکر اور نظریہ دیا جو ایک غلام کے زند رہنے کے لیے اشد ضروری ہیں۔
اس عمل کے ذریعے قوم کو سیاسی اور انقلابی صورتحال کو سمجھنے میں مدد ملی اور لوگوں کے ذہین سازی میں ایک اہم کردار ادا کیا، اس عمل کے ذریعے انہوں نے سامراج کے ہر عمل کی نفی کی اور دشمن کی پالیسوں اور جھوٹے دعووں کو سر عام ننگا کرکے ریاست اور اس کے مشینری کو چیلنج کیا۔
اس دوران فرانسیسی استعمار نے ریڈیو پر پابندی عائد کر دی اور الجزائر گوریلا فائٹرز کے ریڈیو سٹیشن کو ختم کر دیا اور شہر میں ریڈیو والے تمام دوکانوں کو سیل کردیا۔ جس کا واضح مقصد یہ کہ عوام کو ان معلومات سے دور رکھا جاسکے لیکن یہ قبضہ گیر کی بھول ہوتی ہے کہ وہ پابندیوں کے ایک نظریہ کو ختم کر سکتا ہے۔
الجزائر کی جنگ آزادی اور سماجی تعلقات:
فینن یہاں الجزائر کے سماجی رشتوں بات کرتے ہوئے کہتا ہے۔ جنگ کے دوران ہر شے میں تبدیلی آئی ہے چاہے اس کی نوعیت چھوٹی ہو یا بڑی اس بنیاد پر خاندانی رشتوں میں بھی ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔
باپ اور بیٹے کا رشتہ
بقول فینن کے باپ اپنے بچوں کو ہر وقت یہی نصیحت کرتا تھا۔ کہ بیٹے تم اپنے کام سے کام رکھو خوامخواہ اپنے آپ کو مشکل یا تکلیف میں مت ڈالو۔ یہ جنگ ہم نہیں لڑ سکتے کیونکہ ہم کمزور اور غریب لوگ ہے۔ یہ جنگ ہماری بس کی بات نہیں۔ اس دوران باپ اور بیٹے میں کچھ وقتوں کے لیے دوری بھی پیدا ہوئی۔ بیٹے الجزائر کے آزادی کے لئے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن والد کو اس کی خبر نہیں ہوتی ہے۔ اس وقت معلوم ہوتا جب بیٹا جنگ آزادی کے دوران شہید یا زخمی ہو جاتا تھا۔ اس طرح باپ جنگ آزادی کے ایک سپاہی کے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے خاندان والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔
اس طرح الجزائر کے بہادر خواتین بھی رازداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی گھر والوں کو معلوم نہیں ہوتا اس دوران سرکاری ایجنٹ ان کے گھر والوں کے پاس آتے اور ان سے کہتے کہ آپ کی بیٹی سرعام پہاڑوں اور روڈ پر گھوم پھر رہی ہے ہم مسلمان کو اس طرح کرنا زیب نہیں دیتا اگر اپ اپنے بچوں کو سنبھال نہیں سکتے تو ہم اس طرح آپ کے گھر والوں سے تعلق نہیں رکھیں گئے۔ لیکن آزادی کے جذبہ سے سرشار ان بہادر خواتین نے ان فرسودہ روایاتِ کے چنگل سے خود کو آزاد کر کے الجزائری مجاہدین کے ساتھ رہنے کو پسند کیا اور اس دوران الجزائر کے بہادر خواتین جب شادی کی عمر کو پہنچتی تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتی وہ صرف ایک شرط پر شادی کرئے گی۔ وہ یہ کہ اس کی شادی ایک الجزائر مجاہد سے کی جائے۔
اس دوران الجزائر کے مذہبی اور سماجی زندگیوں میں بھی تبدیلی آئی، بقول فینن کے جنگ آزادی سے پہلے لوگ ایک کی وفات پر بیٹھے روتے اور کئی دنوں تک پورے گاؤں والے ایک ساتھ ایک دوسرے کا درد بانٹتے تھے۔ لیکن جنگ کے دوران اس چیزوں میں بہت ہی کمی دیکھنے کو آئی۔ الجزائری معاشرے چونکہ ایک مہذبی معاشرہ تھا۔ وہ لوگ ڈاکٹر کے بجائے علاقے کے حکیم وغیرہ کے پاس جا کر اپنا علاج کرواتے تھے۔ اس دوران الجزائر کے لوگوں کے اندر مختلف طرح کے بیماریوں کی شناخت ہوئی۔ اس دوران فرانسیسیوں فوجی نے مختلف قسم کے کیمیکل استعمال کیا، ان کو کی وجہ سے لوگوں کے اندر مختلف امراض نے جنم لیا۔ لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ وہاں ایک روایت عام تھی۔ کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کو برا سمجھا تھا۔ خاص طور پر ان سفید ڈاکٹروں کے پاس جس قوم نے ان کو غلام رکھا ہوا ہے۔ لوگ علاج کےلئے جاتے تھے۔ ان کو کچھ اس طرح کی ادویات دی جاتی تھی۔ کہ بہت جلد ان کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اس دوران جب سیاہ فام لوگ ہسپتال جاتے۔ تو ڈاکٹر شروع میں ان سے کہتے اپ لوگ یہاں کیوں نہیں آتے ہو۔ یہ تو ہم نے اپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ کے علاج کے سلسلے میں اپ کو آسانی فراہم ہو سکے لیکن دوسرے طرف ان کو غلط قسم کی ادویات دی جاتی تھی۔ اس پر وہ اردو والا محاورہ یاد آتا ہے۔ کہ “سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے”
الجزائر کے جنگ آزادی کے دوران فرانسیسیوں نے تمام تر دوائیوں پر پابندیاں عائد کر دی. جس کا واضح مقصد تھا. کہ الجزائری مجاہدین اپنی موت آپ مر جائے ہر قسم کے سٹوروں اور دوکانوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اگر کسی کے پاس سے ایسی کوئی دوائی مل جاتی۔ جو زخمیوں کے علاج میں بہتر ثابت ہو تو اس دوکاندار کو گرفتار کر لیا جاتا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
بقول فینن غلامی کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب ہر مکتبہ فکر کے لوگ جنگ آزادی میں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔ فینن تشدد پر یقین رکھتا ہے۔ بقول فینن کے تشدد کو روکنے کے لئے اس سے بڑے تشدد کی ضرورت ہے۔
بقول بابائے بوچ خیر بخش مری کے کہ خونخوار جانور کو دلیل کے ساتھ سمجھایا نہیں جاسکتا اور وہ صرف ایک زبان سمجھتی ہے جو کہ تشدد کی زبان ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔