آہنی دروازہ – عمران بلوچ

188

آہنی دروازہ

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنو یار کسی کو لارہے ہیں۔ ہاں ہاں اس کے درد سے کراہنے کی آواز تو سنو کیسے بلک رہا۔
کیوں بھول گئے ہمارا بھی تو یہی حال تھا پانچ سال پہلے جب ہم دونوں کو لایا گیا تھا۔ وہ دن یاد مت دلا یار عجیب سی کیفیت تھی اج بھی چھوٹی بہن کی تجسس بھری نگاہیں یاد ہیں مجھے، موٹرسائیکل کو گاڑی کی ٹکر لگنے کے بعد ہم گرگئے تھے، وہ بھی میرے ساتھ زخمی ہوئی تھی پر میں جانتا ہوں وہ زخموں کی وجہ سے نہیں رو رہی تھی بھائی کی جدائی میں بلک رہی تھی اور کمال دیکھو آج ہی کے دن اسے 14 سال پورے ہونگے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ آج بھی وہ دن نہیں بھولی ہوگی۔

اکبر کی آنکھیں بھر گئیں، شیرجان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کا کندھا دباتے ہوئے بولا یار اکبر ویسے ہمیں پتہ نہیں چلتا، دن اور رات کا ہفتہ، مہینہ نا ہی سالوں کا۔ لیکن جب کسی کو لاتے ہیں تو ہم سب کچھ بھول کر پرانی یادوں میں ڈوب جاتے ہیں۔۔۔ اس کے سسکنے کی آواز تو سنو کتنا سسک رہا ہے یار اکبر: آواز سے تو کوئی نوجوان لگتا ہے۔

چھوڑو یار اکبر یہاں سب نوجوان ہی ہیں۔ کس کوٹھڑی میں لے کر گئے ہونگے؟
وہی جس میں پہلی بار ہمیں رکھا تھا، جس سے خون کی بو آتی ہے، دیواروں پر خون کے چھینٹے ہیں، بڑا سا آہنی دروازہ اوپر سے نیچے کی طرف لٹکتی زنجیریں اور وہ آہنی اسٹول جس کے نیچے ہیٹر ہے، بیچارے کو نفسیاتی طور پر اب ذلیل کرینگے۔

پہلی بار تو کوئی بھی ڈر جائے وہاں شیرو
نہیں یار اکبر جو راہ حق پہ ہوتے ہیں نا، وہ نہیں ڈرتے، وہ تیار ہو ہی جاتے ہیں ان عقوبت خانوں کے لیے، وہ دماغی طور پر تندرست رہتے ہیں، گناہ تو نہیں کرتے جو ڈر جائیں بات حق ہو تو ہر میدان میں جہاد لازم ہے۔

صحیح کہا یار شیرو دوزخ کو کس طرح جنت میں تبدیل کرنا ہے یہ آج کا جوان سوچے گا
بلکل اکبر اگر جوانوں میں دوزخ میں اترنے کی ہمت ہو حوصلہ ہو۔

انہیں باتوں میں ایک دردناک آواز دونوں کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے، شاید آہنی دروازہ بند نہیں، اکبر جو آواز ہم تک پہنچ گئی اس درد بھری چیخ میں بلا کا جوش تھا، جیسے کوہ شاشان سے لاوا پھوٹ پڑنے کو تیار ہو، ایک بار سب کچھ ختم کرکے وادی میں پھر سے نئی زندگی کی شروعات کی ہو، جیسے ایک نئی سماج کی تشکیل ہو، اس چیخ میں سب بیان تھا۔

آہنی دروازہ بند ہوا، جوتوں کی آوازیں گذر رہی تھیں، غالباً پانچ سے چھ بندے تھے سب کے منہ سے گالیوں دھمکیوں کی
آوازیں آرہی تھیں۔

چلو اکبر لیٹ جاٶ آج کا تو ختم ہوا کل کا انتظار کرو
اکبر پچھے مڑا بلکل سامنے والی دیوار پر جا کر رک گیا، زمیں سے لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا اور ایک اور لکیر دیوار پر بنا کر اپنی جگہ پر چلاگیا، پچھلے پانچ سال سے وہ ہر دن اس دیوار پر ایک لکیر بناتا ہے شیرجان نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرتے ہوئے آواز دی کیا لکیر کھنچنے سے ناکردہ گناہ کی تلافی ہوگی؟ اکبر اپنی چادر جو کہ کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی اپنے چہرے پہ کھنچتے ہوئے بولا نئے آنے والوں کو تسلی دینے کے لیے کہ یہاں جو بھی آتا ہے معینہ مدت ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔