آزادی کے متوالے اور آئینہ اغلاط – صفی سریابی

498

آزادی کے متوالے اور آئینہ اغلاط

تحریر : صفی سریابی

دی بلوچستان پوسٹ

سب سے پہلے ان خطوط کی نشاندہی کرنا ہوگا جن پر بلوچ قومی تحریک قائم ہے یا چل رہا ہے، جب تک ان خطوط کی نشاندہی نہیں کی جاتی، تحریک کے مستقبل کا تعین گراں بار ثابت ہوگا ، اگرچہ یہ بات بلوچ قوم کے اکثر افراد دہراتے ہیں اور کسی حد تک درست بھی ہے کہ بلوچ قوم کی تاریخ مزاحمت سے عبارت ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخی مزاحمت کو اب کس انداز میں اپنایا جارہا ہے۔؟ کیا ہم روایتی ڈگر پہ چل رہے ہیں۔؟ کیا ہم پرانے اور زنگ آلود زنجیروں کو توڑنے میں(جو عدم تنقید،عدم برداشت، تحریک میں اجارہ داری وغیرہ) کامیاب رہے ہیں؟ اگر جواب مثبت میں ہے،تو سوال ابھرتا ہے کہ کس حد تک؟ اگر جواب منفی میں ہے، تو پھر بھی سوال بنتا ہے کہ کیوں نہیں۔؟

اگر ہم بلوچ تحریک کے جدید مزاحمتی رنگ کے سو سال مکمل ہونے کا اعتراف کریں، میرے خیال میں غلط نہ ہوگا، 1920 میں ابھرنے والا مزاحمتی تحریک” انجمن اتحاد بلوچاں” کس نوعیت کی جماعت تھیں؟ اس تنظیم نے اپنی جڑیں پھیلانے کےلئے کون سے اسباب و عوامل کو پیش نظر رکھا؟کونسے طریقے اختیار کیے؟ اور اختیار کردہ طریقے کس حد تک کامیاب رہے ؟

درج بالا سوالات ان پر غور و غوص جدید اور قدیم زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا انگریزی نوآبادیات اور پنجابی نوآبادیات کے فرق کو جاننا اور مسئلہ کو شروع آخر تک مختلف زاویوں سے دیکھنا بلوچ قوم کے چنیدہ افراد کے علاوہ کسی کے ذہن میں غلطی سے بھی نہیں گزرتے، تحریک کے اتنے بڑے عرصے میں ہمارے طریقے کیا روز بروز تنزل کا شکار نہیں ہورہے؟کیا ہم بلوچ تحریک کو چند افراد سے اٹھا کر عوامی جنگ بنانے میں ناکام نہیں رہے؟ یقیناً جواب مثبت میں ہوگا،  پھر کیوں نہ ان تمام مسائل کے حل کے لیے، شاعر ،ادیب ،استاد، کالم نگار، تجزیہ نگار ، افسانہ نگار ،مترجم ، ناول نگار غرض قوم کے ہر فرد کو کمر بستہ ہوکر بغل میں کتاب ہاتھ میں قلم اور زبان کی طاقت سے لیس ہوکر مخالف کو ہر محاذ پر ،ہر سنگر پر ہرحال میں ہر لحاظ سے شکست دے کر دم لیا جائے ،آج شاعر ، ادیب دانشور،  پروفیسر ، ڈاکٹر ،قلمکار کس حد تک اپنا فرض پورا کررہے ہیں؟

اگر کوئی مؤرخ زندہ رہا وہ لکھےگا “ایک قوم تھیں،جن کے پاس وسائل بارش کے قطروں سے زیادہ تھے، ماضی کو بڑے فخر سے یاد کرتے تھے، پھر جب انکا تشخص کو خطرات لاحق ہوئے، انکے ساحل وسائل چھین لیئے گئے، تو وہاں کا شاعر زلف و رخسار کے گرد قافیہ پیمائی کرتا رہا، عہدیدار نالی اور روڈ کا ماتم کرتا رہا،  قلمکار چند ٹکوں کے عوض قلم کی تقدس پامال کرگیا ،  اور آج انکی قبروں کے نشان بھی مٹ گئے ہیں”

صورت حال یقیناً زیادہ گھمبیر ہوگی،  جس کا تصور بھی کرنا محال ہے، اگر ہم یونہی آنکھیں چراتے رہے تو کیا ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف کریں گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔