‎کرونا وائرس ہے کیا؟ بلوچستان میں کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال؟ – ڈاکٹر احمد علی سے خصوصی گفتگو

1180

‎کرونا وائرس ہے کیا؟ بلوچستان میں کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال؟

‎دی بلوچستان پوسٹ کا اس موضوع پر ڈاکٹر احمد علی سے خصوصی گفتگو

تقریباً چار لاکھ لوگوں کو متاثر کرنے اور اٹھارہ ہزار جانیں لینے کے بعد کرونا وائرس اس وقت باقاعدہ طور پر ایک عالمی وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس کی شدت اور سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کا بہترین نظام صحت رکھنے والے یورپی ممالک اور امریکہ بھی اسے قابو کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے مکمل لاک ڈاون کا اعلان کرچکے ہیں تاکہ متاثرین کی شرح اس حد تک کم رکھا جاسکے، جنکا بوجھ انکا نظام صحت اٹھا سکے۔

بلوچستان جیسا خطہ جہاں لوگ بنیادی صحت کے سہولیات تک سے محروم ہیں، جہاں ہسپتال اور نظام صحت ناپید ہے، اس وباء کے پھیلنے کی صورت میں کس صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں اور ایسی کسی صورتحال سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

کرونا وائرس اور بلوچستان کے مخصوص صورتحال کے پیش نظر دی بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹر احمد علی سے گفتگو کی اور بلوچستان میں اس وباء کی صورتحال جاننے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر احمد علی بولان میڈیکل یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف کارڈیولوجی میں پوسٹ گریجویٹ ریزیڈنٹ ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: کرونا وائرس کیا ہے؟

ڈاکٹر احمد علی: چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی اس وائرس کو عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس یا کووڈ- 19 کے نام سے شناخت کیا۔
Corona = Co
Virus = Vi
Disease = D
2019 = 19
‎ویسے تو وائرس کی بہت سی اقسام ہیں، لیکن ان میں سے چھ اور موجودہ قسم کو ملاکر 7ایسے اقسام ہیں جو جانور سے انسان میں منتقل ہوکر نظام تنفس میں مختلف پیچدگیاں پیدا کرتے ہیں، جیسے کہ 2002 میں SARAS (Sever Acute Respiratory Syndrome) اور 2012 میں MERS (Middle East Respiratory Syndrome) منظر عام پر آئے اور قریباً 10000سے زائد افراد کو متاثر کرکے 1600افراد کو ابدی نیند سلا دیا۔

‎تحقیق کے مطابق SARSاور MERSجنگلی بلی اور اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ کرونا کی حالیہ قسم کی بات کی جائے تو ایک کروڑ سے زیاہ آبادی والے شہر ووہان کی سمندری حیات کے مارکیٹ سے دریافت ہوکر پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ کہا جارہا ہے کہ اس مارکیٹ میں کچھ ممالیہ جانور کی وجہ سے یہ وائرس پید ہوا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ وباء تقریباً 189ممالک میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے، جبکہ 3لاکھ سے زائد افراد اس جان لیوا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وائرس کی Morbability rateاس کی Mortality rate سے زیادہ ہے یعنی شرح اموات، شرع پھیلاﺅ سے قدراً کم ہے۔

‎عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ سانس کی نالی پر حملہ آور ہوتا ہے، جس سے ناک بہنا، گلے میں سوزش، کھانسی اور تنگی نفس جیسی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق چند دوائیاں جیسے کہ Chloroquine اور Hydroxychloroquin اس وائرس کی Replicationکو روکنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں چونکہ کرونا وائرس چھینکنے اور دوسرے رطوبتوں سے ایک انسان سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے لہٰذا WHO کے بتائے گئے حفظان صحت کے اصولوں کو اپناکر اس موذی مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: عالمی وباء سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹر احمد علی: عالمی ادارہ صحت نے 11مارچ 2020کو کرونا وائرس کو ایک عالمی وباء قرار دیا چونکہ اس مرض نے ایک قلیل مدت میں 189ممالک اپنی دہشت کے پنجے گاڑھ کر 3لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر Dr Tedros Adanam (ڈاکٹریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ او) نے اسے عالمی وباء قرار دیا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس وقت بلوچستان میں اس وائرس کی کیا صورتحال ہے؟

‎ڈاکٹر احمد علی: چونکہ یہ وائرس ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکی ہے چنانچہ اس نے بلوچستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں تقریباً 106 مریض مختلف سینٹرز میں رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سے ایک 70سالہ بزرگ گذشتہ دن زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ اس وائرس کی شدت میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب ایران سے آنے والے ہزاروں زائرین کو جوق در جوق بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لاکر رکھا گیا۔ اطلاعات کے مطابق مزید زائرین کو بلوچستان منتقل کیا جارہا ہے، جس سے وائرس کے پھیلنے کے زیادہ خدشات ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچستان ایک کم آبادی، طویل رقبہ اور بکھرے ہوئے آبادیوں والا خطہ ہے۔ کیا پھر بھی یہاں اس وباءکے پھیلنے کا خطرہ اتنا ہی موجود ہے؟

‎ڈاکٹر احمد علی: بلوچستان کی جغرافیائی ساخت، کم آبادی، ایک مثبت صورت ہے۔ کرونا وائرس زیادہ آبادی والے علاقوں میں جلد پھیل جاتا ہے چونکہ بلوچستان کی آبادی منتشر ہے تو اس میں یہ وباء پھیلنے کے امکانات کم ہونے چاہئیں تھے، مگر حکام کی لاپرواہی اور ہزاروں زائرین کو بلوچستان میں رکھنے سے یہ وباءخطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: کیا محکمہ صحت بلوچستان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیئے صلاحیت موجود ہے؟

‎ڈاکٹر احمد علی: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محکمہ صحت نے بلند و بانگ دعوﺅں کے علاوہ کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا۔ وینٹیلیٹر جوکہ کرونا کے مریض کو بچانے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے، بلوچستان میں بلکل ناپید ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت زائرین کو گنجان آبادیوں میں منتقل کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ابھی تک حفظان صحت کی بنیادی Tools تک مہیا نہیں کی گئے ہیں اور اگر خدانخواستہ یہاں کرونا وائرس کا Out break ہوجاتا ہے تو یہ وباء محکمہ صحت کے بس سے نکل جائے گا۔

دی بلوچستان پوسٹ: بلوچستان میں اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیئے کونسی خصوصی اقدامات اٹھانا ضروری ہیں؟

‎ڈاکٹر علی احمد: چونکہ یہ وائرس آرام سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتا ہے،تو لوگوں کا اجتماع یا رش اس کو خطرناک حد تک پھیلا سکتا ہے۔ لوگوں کو چاہیئے کہ حد درجہ کوشش کی جائے کہ گھر کے حد تک محدود رہیں۔ بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ اور اجتماعات پر مکمل پابندی لگائی جائے، ہاتھوں کو بار بارد دھویا جانا اور ماسک اور گلوز کا استعمال اس کو پھیلنے سے روک سکتا ہے۔