یہ صرف بی ایم سی کا مسئلہ نہیں
تحریر: گہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے طلبا کی تیسری احتجاجی تحریک تھی، اس بار پہلے کےنسبت زیادہ متحرک اور منظم انداز میں سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے مکمل تعاون حاصل تھی۔ سوشل میڈیا پر انکی اپنی ٹیم ورک کیساتھ ساتھ دیگر روشن فکر اور سیاسی کارکنان نے انکے حق میں ٹوئیٹر اور فیسبک پہ بھر پورمہم چلائی جوکہ انکے حق میں ایک مثبت اور وزن دار ثابت ہوئی۔ حاکم وقت اور ذمہ داران کو مجبور کیا کہ اس اہم مسئلے کی طرف انکی توجہ مبذول ہو۔ بنیادی طور پر بولان میڈیکل کالج کا مسئلہ اُسوقت سامنے آیا جب 2017 میں بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملا اور حال ہی میں چانسلر بلوچستان نے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کی اور اس کے فوراً بعد طلباء اور ملازمین نے اپنے حقوق کے لیے ملکی آئین و قانون کے دائرے کار کے اندر رہتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے درمیان شارع زرغون پر دھرنا دینے کے لیئے بیٹھ گئیں اور ابتدائی دور میں مظاہرین کو منتشر کرانے میں تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فیمیل اسٹوڈنٹس کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور بعد میں سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں کی سوشل میڈیا پر ردعمل سے انہیں فوری طور پر رہا کردیا گیا۔ اور مظاہرین دوبارہ احتجاج میں بیٹھ گئے اور انکے حق میں سوشل میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا مختلف سیاسی جماعتوں کا موقف بھی سامنے آگیا۔
اس ضمن میں اس مسئلے پہ سب سے زیادہ سخت موقف اختیار کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ کی تھی کہ ” بولان میڈیکل کالج کو کاروباری ادارہ نہیں بنایا جائے” باقی اس تمام صورت حال میں تمام بلوچ طلبا تنظیمیں تحریک کےساتھ شانہ بشانہ تھے، بلوچ طلبا تنظیمیں اس لئے کہ اس میں زیادہ تر بلوچ طلبا متاثر ہورہے ہیں بلکہ غیر بلوچ نمائدہ طلبا تنظیم کی جانب سے موجودہ وائس چانسلر کے حق میں بیان بھی جاری ہوئے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ 2017 میں بولان میڈیکل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت بولان میڈیکل کالج کے سابقہ پوزیشن کو ختم کرکے انہیں یونیورسٹی میں ضم کرکے انکے ملازمیں کو گورنمنٹ آف بلوچستان کے ملازمت سے ایک ( اٹانمس) باڈی میں ضم کرکے انکی سول سروس کی حیثیت کو ختم کرکے انکی ملازمت ڈھانچہ متاثر ہوسکتا ہے ۔ جس میں برائے راست ہزار کے لگ بھگ ملازمین متاثر ہورہے ہیں۔
اسی مسئلے سے جڑا ایک اور اہم مسئلہ بولان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم اسٹوڈنٹس کی ہے کہ انکی ایکڈمک اور ہاسٹل فیس کے علاوہ بہت سارے مسائل کا سامنے کرنے کا خدشہ ہے۔ اس میں ایک اور مسئلہ یہ آرہا ہے کہ اسوقت بولان میڈیکل کالج کا داخلہ پالیسی ضلعی سطح میرٹ کی ہے، ہر ڈسٹرکٹ کو آبادی کی مناسبت سے انٹری ٹیسٹ کی نشستیں مختص ہیں، اس پالیسی کو ترمیم کرکے بلوچستان سطح پر اوپن میرٹ رائج کرانے کی ایک کوشش ہورہی ہے اور اس کےساتھ ساتھ سیلف فنانس کو بھی متعارف کرانے کی کوشش ہورہی ہے، جس سے قابل اور لائق اور میرٹ کوالیفائی طلبا کو ایلیٹ سے ترجیح دی جاتی ہے جو کہ اسوقت بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے بلوچ اضلاع کے بلوچ طلبا اور طالبات کے ساتھ انتہائی تعصب اور زیادتی ہے کیونکہ اوپن میرٹ کے نام پہ پہلے سے بلوچ طلبا ( بیوٹمز ) کا داخلہ پالیسی بھگت رہے ہیں، وہاں بلوچ طلبا اور ملازمین اُنگلیوں سے گنے جاتے ہیں۔ ایک بار پھر بلوچستان میں بلوچ طلبا و طالبات کو ایک اہم شعبہ طب سے دور کرانے کی ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہورہی ہے۔
اس رویے سے بلوچ طلبا اور بلوچ عوام کی اس نظام سے نفرتیں بڑھی ہیں کیونکہ اس سے برائے راست بلوچ حلقے متاثر ہوتے ہیں اور اس تمام صورتحال میں پشتون کی خاموشی سے بھی یہی تاثر لیا جارہا ہے کہ اگر وہ اس مسئلے پہ موجوزہ ایکٹ کے حوالے سے ترامیم کے حق میں ہوں تو وہ ( بینیفشری) نہیں ہوگا ۔ کیونکہ ماضی میں اسطرح کے میرٹ کے نام پہ بلوچ زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور انکو زیادہ فائدہ دیاجاتا تھا۔ مگر یہاں ہمارا مسئلہ صرف بلوچستان میں بلوچ آبادی کی حق تلفی کے حوالے سے حکومتی موقف کو اس لیے رد کرتے ہیں کہ اس سے صوبے میں پسماندگی بڑھنے اور نفرتیں جنم لینے کی زیادہ آثار نظر آرہے ہیں اور اسوقت آپس میں مزید دوری پیدا کرانے کی متحمل نہیں ہوسکتے ۔
بہرحال جس نے اس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے انتہائی ایمانداری اور مستقل مزاجی کیساتھ اس سفر میں اپنے بلوچ ہونے کا ثبوت دیا ہے، وہ قابل دید و تعریف ہے۔ اس تمام صورتحال میں قانونی اور ٹیکینکل مسائل کو مدِ نظر رکھ کر مظاہرین کے ساتھ شانہ بشانہ رہے اور چیدہ چیدہ چیزوں کا جائزہ لیا، طلبا تنظیموں اور متاثرین طلبا کیساتھ ساتھ بحالی بولان میڈیکل کالج کی تحریک کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ لیا وہ اپنے شعبے سے انتہائی مخلص اور ایماندار ڈاکٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ہیں ڈاکٹر محمد الیاس بلوچ اسکی اس مسلے پہ کلیدی کردار سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، وہ تمام صورتحال میں طلبا کیساتھ متحرک نظر آرہا تھا اگر انکی حوصلہ اور رہبری نہیں ہوتا تو شاید ہماری بہن ( گودی مہرنگ بلوچ ) کی حوصلہ کمزور ہوتی انکی بہادری پہ انکے ہمعصر کو فخر کرنا چایئے کیونکہ وہ اُن میں سے ہی ہے اور انہی طبقے کی ایک آواز بن چکی ہے۔
یہاں صرف بولان میڈیکل کالج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان کو تعلیم کے میدان میں ہر دور میں پسماندہ رکھنے کے پییچے ایک رویہ ہمیشہ سے پائی جاتی ہے جو کہ وقتاً فوقتاً ظاہری دیتی ہے ۔ اس سے قبل بلوچستان کے ڈومیسائل اور لوکل بنوا کر بلوچستان کے کوٹے پر ملازمتیں لینا اور داخلہ لینا بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس سے کسی طور پر چشم پوشی اختیار نہیں کی جاتی ہے۔ یہاں مسئلہ ایک حاکم وقت سرکار کی نہیں بلکہ روز اول سے بلوچستان کے حوالے سے فیڈریشن کی مخصوص مائنڈ سیٹ کی ہے جو وہ ہرگز نہیں چاہتی کہ بلوچ عوام میں شعور و اآگاہی پیدا ہو اور اپنے حقوق کی حفاظت میں شعور رکھے بلکہ وہ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو ایک محدود دائرے میں دیکھنا چاہتی ہے، انکے اس رویے منظم انداز میں مہم جوئی کرنا ہوگا بلکہ حقوق کی پاسداری کے لیے ملک کے تمام لکھے پڑے روشن خیال طبقے کو فیڈریشن کی اس مائنڈ سٹ کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ اگر وہ طبقہ جو وہ یہ سمجھتی ہے کہ بلوچ عوام اور اسلام آباد کی یہ دائمی دوری میں فاصلہ کٹ جائے تو وہ اسطرح کے مسائل پہ اپنا ایک برج بن کر کردار ادا کریں کیونکہ اسطرح کی چھوٹی سی چھوٹی مسائل آگے چل کر مزید شددت اختیار کر کے پھر ہم سب کے گرفت سے بے قابو ہوتے ہیں۔
ہماری اپنے ہم خیال روشن فکر قلم کار و دانشور حضرات سے یہی توقع رکھتے ہوئے التجا بھی کرتے ہیں کہ کم از کم بلوچستان کے تعلیمی پسماندگی کے خلاف حاکم وقت کی تعلیم دشمن اور نفرت جنم دینے والی پالیسی کے خلاف کھل کے اظہار خیال کریں کیونکہ زمینی حالات بھی یہی تقاضہ کرتی ہیں اور ماضی میں بھی اسطرح کے چھوٹے مسائل بھی سنگین نوعیت کے بن کر سامنے آئے ہیں اور بعد میں کسی کے قابو میں نہیں آئی ہیں، بہتر یہی ہوگا کہ نوجوان کے تحفظات کو مد نظر رکھ کر انکے مسائل پہ توجہ دی جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔