یومِ سندھودیش ؛ تاریخی تناظر میں
تحریر: ملہار سندھی
دی بلوچستان پوسٹ
۳۱مارچ،۱۹۷۲ع کے دن رہبرِسندھ سائیں جی ایم سید نے سندھ وطن کی تاریخی مُلکی حیثیت کی بحالی کا اعلان کیا۔ سندھ برِصغیر میں ایک تاریخی مُلک رہتا آیا ہے، جس پر ۱۸۴۳ع میں انگریزوں نے حملہ کرکے اسے ‘بمبئی پریزیڈنسی’ سے ملادیا۔ جس سے آزادی کے لیئے سندھ نے قریباً ایک سو سال تک جدوجہد کی اور بالآخر ” انڈین آئین ساز ایکٹ ١٩٣۵” کے تحت ١٩٣٦ میں سندھ نے بمبئی سے آزادی حاصل کرکے اپنی آزاد آئین ساز اسمبلی بنائی۔
جس میں سب سے پہلے سائیں جی ایم سید کی رہنمائی میں ’سندھ اتحاد پارٹی‘ بڑی اکثریت سے جیت کر آئی، جس نے انڈین نیشنل کانگریس کے امیدوار اللہ بخش سومرو کی حمایت کرکے انہیں سندھ وطن کا پہلا منتخب وزیراعظم بنایا۔
آگے چل کر اسی ہی سندھ اسمبلی سے ٣ مارچ ١٩۴٣ع پر سائیں جی ایم سید نے سندھ کو ’آزاد ریاست‘ کی حیثیت سے رہنے کے شرط پر ۱۹۴۰ع کی قراداد (جس میں آزاد ریاست کی حیثیت سے رہنے کی ضمانت دی گئی تھی) کی حمایت میں بل پیش کیا، جو اکثریت سے منظور کیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد سندھ سے دھوکہ ہوا، کراچی کو سندھ سے چھین کر وفاقی دالحکومت بنانے پر سائیں جی ایم سید نے سخت احتجاج کیا، جس کی وجہ سے ۱۹۴۸ میں سائیں جی ایم سید کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ پاکستان بنتے ہی جیل میں جانے والا سائیں جی ایم سید پاکستان کا پہلا سیاسی قیدی تھا۔
جسے وقتاً فوقتاً ۱۹۷۰ع تک مسلسل جیلوں میں رکھا گیا اور دوسری جانب سندھ کو ‘خودمختیار ریاست’ کی حیثیت سے رہنے کی ضمانت تو دور لیکن سندھ کی بمبئی سے آزادی کے بعد جو ’خودمختیار صوبائی حیثیت‘ تھی، اسے بھی ختم کرکے ’ون یونٹ‘ لگایا گیا۔
جس کے خلاف سندھ میں سائیں جی ایم سید نے ’اینٹی ون یونٹ فرنٹ‘ بنا کرسندھ کی تاریخی حیثیت کی بحالی کی جدوجہد جاری رکھی۔
١٦ دسمبر ۱۹۷۱ میں پاکستان ٹوٹ جانے اوربنگلادیش بننے کے بعدقوموں کے مابین کیا گیا ’۱۹۴۰ کی قراداد والا معاہدہ‘ خود بخود ختم ہوگیا۔
جس بنا پر سندھ آزاد، خودمختیار ریاست کی حیثیت سے رہنے کی ضمانت پر شامل ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے تین ماہ بعد ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ع کے دن سائیں جی ایم سید نے بھی سندھ میں پاکستان سے علیحدگی اور ’آزاد سندھودیش‘ کی تحریک کا آغاز کرلیا۔ جس وجہ سے انہیں اپنی عمر کے آخری وقت تک جیل و قید کی نظربندیوں میں گذارنا پڑا۔
سندھ اس خطے میں ہزاروں سالوں سے ایک الگ اور آزاد مُلک کی حیثیت سے رہتا آیا ہے، جسے انگریزوں نے ۱۸۴۳ع میں حملہ کرکے چار سال بعد ۱۸۴۷ع میں انتظامی طور پر بمبئی پریزیڈنسی سے ملادیا تھا۔ جس کے خلاف تقریباً ایک سو سال تک جدوجہد کی گئی ۔
انگریزوں نے جب سندھ پر حملہ کیا تھا تو اس وقت سندھ ایک آزاد، خودمختیار مُلک تھا اور ١٩٣٦ع میں جب سندھ کو بمبئی سے آزادی ملی تو اس وقت سندھ کو ہندستان کا ایک ’صوبہ‘ قرار دیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سندھ پر جس حیثیت میں قبضہ ہوا تھا، تو بمبئی سے آزادی کے وقت سندھ کی وہ ہی آزاد مُلک والی حیثیت بحال کی جاتی۔ لیکن انگریز جاتے جاتے اپنے مستقل مفادات کے حصول کے لیئے سندھ کو ’پاکستان‘ نامی ایک جعلی ریاست میں پھنساتے گئے۔ جوکہ نا ۱۹۴۰ع کی قراداد موجب تھی اور ناہی سائیں جی ایم سید کی ۱۹۴۳ع کی سندھ اسیمبلی والی قراداد موجب تھی۔
۱۹۴۷ع میں بننے والا پاکستان صرف اور صرف انگریزون کے مستقل آلہ کار ریاست کی حیثیت میں وجود میں لایا گیاتھا۔ جس کا کنٹرول انگریز اپنی جانشین ’پنجابی فوج‘ (جوکہ پہلے برٹش آرمی تھی) اور پنجابی اسٹیبلشمینٹ کے ہاتھوں میں دے گئے۔
جس سے مکمل نجات حاصل کرنے کے لیئے سائیں جی ایم سید نے ۳۱مارچ ۱۹۷۲ع میں سندھ یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے اس تاریخی خطاب سے سندھ وطن کی تاریخی حیثیت کی بحالی کے لیئے سندھودیش کی تحریک کی شروعات کی کہ
“سندھی اپنے وطن، زبان، کلچر، تاریخ، سیاسی و اقتصادی مفادات کے بنیاد پر ایک جداگانہ قوم ہیں۔
اور ایک قوم کی حیثیت سے سیاسی، اقتصادی، کلچرل آزادی، خوشحالی و ترقی کے لئے اپنے فیصلے خود کرنے میں حق بجانب ہیں۔
اس لیئے اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان سے آزاد ہوکر اپنے وطن سندھویش کی آزادی اور تاریخی حیثیت کی بحالی کا اعلان کریں اور دنیا کی دیگر آزاد اقوام کی طرح آزاد اور خودمختیار حیثیت سے رہیں.”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔