ہنستا مسکراتا، آزاد
تحریر: سگارکولوائی
دی بلوچستان پوسٹ
جہد آزادی کی راہ میں بے شمار لوگ قربان ہوئے،لاتعداد لوگ آج بھی سرگرم عمل ہیں ۔ یقیناً آزادی ہی وہ نعمت ہے، جس کیلئے کئی قوموں نے نسل کشی کی تلخ اور سیاہ ترین دور کا سامنا کرتے ہوئے اس عظیم نعمت کوحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔جن قوموں نے قربانی دینے کے نظریہ و افکار کو سمجھا، آج وہی اقوام دنیا میں خوشحالی اور تہذیب وتمدن کی شان و آن سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح گذشتہ ستر دہائیوں سے بلوچ بھی اپنی کھوئی ہوئی آزادی اور شناخت بچانے قابض پاکستان کے خلاف سیاسی اور عسکری محاذ پہ قربانیوں کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ قوم کی ان قربانیوں کی بدولت تحریک آزادی آج معراج کو چھورہی ہے۔
بلوچ قومی تحریک کی کامیابی و کامرانی سے خائف دشمن آئے روز گرتی ہوئی سیاسی اور اخلاقی اقدار کا کھلا ظہار کرتاہوا نظر آرہا ہے، جس میں ہر وہ غیر انسانی عمل دیکھنے کو ملتاہے جس کی دنیا کی کوئی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ دشمن کے تمام اوچھے اور غیر انسانی ہتکھنڈوں کے باوجود راہ آزادی میں برسرپیکار بلوچ جانباز تمام تر مصائب و مشکلات کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے نظرآتے ہیں۔ جنکی زندہ مثال عقیل مراد عرفِ آزاد ہے۔ جنہوں نے آٹھ سال کی طویل مسافت میں تحریک آزادی میں صبرو تحمل اور برداشت کا عظیم کلچر متعارف کرکے ثابت قدم رہا۔
آشوبی حالات میں بے شمار اذیت اور تکالیف گلے لگاکر منزل مقصود کا حصول ممکن بن جاتا ہے یہی سوچ دراصل نظریہ و فکر کہلاتا ہے جہاں علم آزادی بلند رکھنے کے لیے عقیل جیسے جانثار ہمہ تن تیار رہتے ہیں، جس کیلئے ضرروی نہیں کہ شاہی خاندان اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا سند یافتہ ہوں بلکہ ایک بلوچ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامل انسان کا ہونا اولین شرط ہے، اسی طرح عقیل بلوچ کے کردار کا جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں ایک کامل اور عظیم انسان کا عکس دکھائی دیتاہے۔
دوران محاذ میں نے جب اور جہاں کہیں آزاد کو پایا۔۔۔ اُن کو مسکر اتے پایا، ایسی مسکراہٹ جو آزادی کے متوالوں کے چہروں پہ ہر کھٹن حالت میں عیاں ہوتی ہے ۔یہ مسکراہٹ آزادی کے متوالوں کی میراث ہوتی ہے جس میں پیغام آزادی پنہاں ہوتا ہے ، وہ اپنی اس مسکراہٹ کو ہر سُو پھیلانے کی جہد کرتے ہیں تاکہ جہد آزادی کا پیغام وسیع تر ہو۔۔۔ غلام دیش کے آزاد سپاہیوں کی مسکراہٹ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ دشمن چاہے ہمیں غلام رکھنے کے کتنے ہی حربے استعمال کیوں نہ کریں لیکن وہ ہماری مسکراہٹ جو ہماری کامیابی کی نوید ہوتی ہے ہم سے کبھی چھین نہیں سکتا۔ہم اسی مسکراہٹ کے ساتھ نہ صرف جینے کا ہنرجانتے ہیں بلکہ موت کی آغوش میں جاتے ہوئے بھی چہرے کہ یہ مسکراہٹ برقرار رہتی ہے ، چاہیے اس سفر میں کتنی اذیتیوں کا سامنا کرنا پڑے، چاہے کتنی قربانی کیوں نہ دینی پڑیں، لیکن ہم سے ہماری مسکراہٹ کا ہنر کوئی چھین نہیں سکتا۔ یہی دراصل قربان ہونے کا فلسفہ ہے، ایسی قربانی جس کی آغوش سے لاکھوں آزاد جنم لینگے، ایسی قربانی جو قوم ووطن کی خوشحالی کا ضامن ہے، ایسی قربانی جس میں قوم کے لیے واضح پیغام ہوتاہے کہ حصول مقصد کی راہ پُرخار ضرور ہے لیکن مسرتوں سے مبرا نہیں ۔ یہی سوچ و فکر جس کا عکس عقیل جان تھا اور یہی سوچ و فکر جس کو اپنانے آج بلوچ قوم کے فرزند نظریاتی بنیادوں پہ تیار ہیں۔
قوم و وطن کے لیے آزاد کی قربانی کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں کہ عقیل جان نے جذبہ آزاد ی کے تمام تھیوریز کو نہ صرف دوام بخشا بلکہ ان میں اپنا لہوبھی شامل کیا جو آج پڑھنے اور پڑھانے میں اپنی مہک سی خوشبو کو پھیلارہی ہے اورکل اسی فلسفہ ئِ آزاد سے ہم اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔
بی ایل ایف سے وابسطہ آزاد نے آزادی کے لیے آٹھ سال کا طویل عرصہ مشکل اور کھٹن حالات میں گزارکراپنی سیاسی اور عسکری سرکلز میں مایوسی کو ہمیشہ اپنی ہنسی اور مسکراہٹ سے شکست دیتا رہا۔ یہی مسکراہٹ دورانِ شہادت بھی آزاد کے چہرے پہ سجا جو راہ آزادی کے جانثاروں کی فتح اور دشمن کی شکست تصور کی جاتی ہے۔ آزاد نے اپنی مسکراہٹ آج دوستوں کے حوالہ کیا،آج بھی آزاد جیسی مسکراہٹ ہماری صفوں میں شاہنواز کی شکل میں موجود ہے۔ مسکراہٹ سے لبریز ہزاروں آزاد آج بھی پہاڑوں کو اپنا مسکن بنائے دشمن کے خلاف برسرعمل ہیں اور یہی مسکراہٹ ایک دن نوید صبح کا پیغام لے کے آئے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔