ہم کب سمجھیں گے؟
تحریر: سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ تحریک کے حالیہ دورانیئے سے لیکر آج بیس سال بعد ہم اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کرنے کی جرات کی ہے یا نہیں اور یوںہی مسلسل تجربوں سے گذر رہے ہیں؟ تمام اونچ نیچ حمایت، مخالفت ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے علاوہ بھی کچھ کیا ہے یا کرنے کا سوچ ہے؟
اب جو ہم قومی بنیاد پر ایک جنگ لڑرہے ہیں، کیا ہمارے پاس اس جنگ کو آگے لیجانے کیلئے کوئی حکمت دانش اور علم ہے یا نہیں یوںہی بس چل رہے ہیں کہ کب کہاں اور کیسے کیا ہوگا دیکھا جائے گا؟
مستقل جنگیں اور طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہیکہ آپ کے ہاں ایک روڈ میپ ہو کہ ہم اس جنگ کو محدود پیمانے پر موجود وسائل کے ہمراہ کس منزل تک لے جائیں گے۔ افغانستان کے بدلتے حالات خطے میں موجود کشیدگی اور سیاسی صورتحال کو ایک طرف رکھ کر اگر اپنے اندرونی مسائل پر بحث کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں ہچکچانے کی بجائے سیدھا سیدھا یہ بتانا ہوگا کہ ہم اندرونی سطح پر اپنے ساتھیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس سے ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں مایوس ہوں یا دلبرداشتہ ہوں۔ مگر یہ جو ہمارے درمیان مسائل کے اب بھی انبار لگے ہوئے ہیں، جن پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل بھی نکالنے ہوں گے جو ہم ہی سے حل ہونگے۔ آج دیگر مسائل کو چھوڑ کر ہم صرف ایران میں موجود ساتھیوں کی پے در پے شہادت پر کھل کر بحث کریں۔ تو ہمیں آسانی سے معلوم ہوگا کہ ہمارے ساتھی ایران میں بآسانی کیونکر نشانہ بن رہے ہیں اور وجوہات کیا ہیں۔ تنظیمی پالیسیوں کے فقدان یا کارکنوں کی آزاد خیالی یا حد سے زیادہ خوش فہمی؟
اکثر ہم بحث کا آغاز تو کرتے ہیں مگر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں کیوں؟ کیا یہ ممکن ہیکہ جب آپ قومی شناخت و بقا کی جنگ لڑرہے ہیں اور اسی دوران فرسودہ روایات کی پاسداری بھی کریں اور وہ بھی ان روایات کی جو کسی بھی طور پر جنگ کے دوران یا جنگ زدہ قوم پر لاگو ہی نہیں ہوتے؟ آج جب ہم دنیا کے دیگر جنگوں کو دیکھیں اور جنگ کے دوران سماجوں کی بدلتی ہوئی شکلوں کو دیکھیں تو ہم واضح طور پر اس جنگ اور اس دورانیے میں ہونے والے نقصانات کا نہ صرف اندازہ لگاسکیں گے بلکہ آنے والے دنوں میں ان نقصانات سے بچ سکیں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ بیس سالہ جنگ سے نہ ہم نفسیاتی طور پر تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی سماج کو تبدیل کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔
ملا عمر کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے امریکی بیس کے قریب ہی رہائش کی تھی اور انتہا کی حد تک روپوش بھی رہے تھے۔ ایسے کئی مثال ہمیں ملیں گے اگر ان تمام مثالوں کو لے کر بحث کریں تو ایک مضمون ناکافی ہوگا۔
مگر ہمیں اپنے حالات کو دیکھنا ہوگا کہ ہم نے کس حد تک ان فرسودہ روایتوں کی پاسداری سے کس سطح کے نقصان اٹھائے ہیں۔ اسی جنگ کے دوران ہم نے انہی فرسودہ روایتوں کی پاسداری کرتے ہوئے شیہک جیسے ساتھیوں کو کھویا اور انتہائی اہم علاقے بھی ہمارے ہاتھ سے چلے گئے وجہ کیا تھا وجہ انہی فرسودہ روایات کی پاسداری تھی اور انہی فرسودہ روایات کی وجہ سے ہم نے انتہاء کی حد تک نقصان بھی اٹھائے ہیں، جن کا ازالہ بھی ممکن نہیں۔
حالیہ ایران میں ہونے والے ساتھیوں کی شہادتوں کو لے کر بحث کریں، ایران کے دوست و دشمنی پاکستان کی مکاری اور بھکاؤ لوگوں کی چال بازی وغیرہ کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم خود پر ایک نظر دوڑائیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ ہم سے کیا سرزد ہوا ہے اور کیوں یہ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ تو اس کا صاف جواب یہ ہوگا کہ جب ہم اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو ہمیں مغربی بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینا پڑا، وہاں ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اس علاقے کو آزاد تصور کیا اور اسی تصور کو لے کر آزاد گھومنا پھرنا رشتہ داروں اور ساتھیوں کے ساتھ پکنک منانا آزادی کے ساتھ کھلم کھلا سفر کرنا ایک دوسرے کے ہاں جانا مہمان نوازی اور خاطر داری کا لطف اٹھانا شادی بیاہ اور دیگر رسم رواج کو عالی شان اور جنگ سے پہلے کے طریقے سے منانا اور سالوں سال اسی علاقے میں رہائش کرنا اور سرعام اپنے شناخت کے ساتھ رہنا یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم نے ایسے ساتھی کھوئے جو کھونے کے بھی نہ تھے، ایک کے بعد ایک ساتھی کا شہید ہونا واضح طور پر اشارہ دے رہا تھا کہ ہم اب دشمن کیلئے آسان ہدف بن چکے ہیں، مگر پھر بھی احتیاطی تدابیر نہیں اپنانا اور وہی روایتی انداز سے ایک دوسرے کے گھر جانا موج مستی نہ صحیح ذہنی عیاشی کرنا اور پھر یہ گلہ کرنا کہ ہم کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیا ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں اس کا قیمت ہمیں چکانا ہوگا اور دشمن ہم پر پلٹ کر وار کرے گا۔ اور یہی ہوا جس پر ہر وقت ہم گمان کررہے تھے شک کررہے تھے اور مختلف دورانیے میں میں نے بذات خود ان بے احتیاطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
بلوچستان میں مسلح حملوں کی شدت کے ساتھ ہی مغربی بلوچستان میں شہادتوں کا سلسلہ زور پکڑتا گیا اور یوں ایک سے بڑھ کر ایک محنتی ساتھی نشانہ بنتا گیا۔ دراصل وجوہات یہی تھے اور یہی ہیں اور اگر مستقبل میں ہم نے اپنے طریقے نہیں بدلے تو ایسا ہی ہوتا رہیگا۔
رشتہ داروں سے ملنے کے بہانے سالوں سال وہیں پر رہائش کرتے رہنا اور انہی روایات مہمان نوازی، دعوت، رسمی اور غیر رسمی بیٹھک اور غیر ضروری رفت و آمد سے باز نہیں آنا اور اسی طرح سرعام گھومتے رہے اور اصلی شناخت کے ساتھ تو دشمن ہمیں آسانی سے نشانہ بناتا جائے گا اور ہم کچھ دن کے لیئے حساس ہوتے ہونگے اور پھر وہی غلطی دہراتے رہینگے اگرچہ ان روایات کو ختم کرنا ان شخصیات اور رول ماڈلوں کا کام ہے جن کا تحریک میں ایک مقام ہے، اگر وہ یہ نہیں کرسکتے تو پھر ہمیں خود سے یہ شروع کرنا ہوگا اور اس عمل کو تسلسل کے ساتھ آگے لے جانا ہوگا کہ اب بھی وقت ہے اور اب سمجھنے کیلئے کچھ بہتر کرنے اور اپنے بچاؤ کیلئے ایک قدم آگے نکلنا ہوگا۔ بچاؤ سے مراد ہرگز بزدلی یا جنگ سے دوری نہیں بلکہ جنگ اور دشمن کیخلاف لڑنے کیلئے بہتر حکمت عملیوں کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔
مگر ہم آج بھی یہ نہیں کررہے، دن بہ دن ہم روایات کی پاسداری کے نام پر آسودگی آرام و آسائش کی طرف مائل ہورہے ہیں، جو بذات خود ایک گوریلا سرمچار کیلئے ایک موت ہے اور اسی کے ساتھ دشمن بھی ہمیں بآسانی نشانہ بنا رہا ہے۔ تو پھر ایک سوال میں اپنے آپ سے ہروقت کرتا ہوں کہ بلآخر ہم کب سمجھیں گے کہ یہ ایک جنگ ہے اور جنگ کو جب تک جنگ سمجھ کر نہیں لڑیں گے خواہشات، روایات، آرام پسندی، کو ذہنی طور پر چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہونگے۔ تب تک اسی طرح اپنے ہی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے دشمن کیلئے آسان ہدف بنتے جائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔