انسانی حقوق کے باتوں اور مطالبوں کی پاکستان میں نہ اہمیت ہے اور نا ہی کوئی گنجائش موجود ہے۔ آج بلوچ قوم کی سیاسی، معاشی، سماجی، تعلیمی حوالے سے نسل کی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ کے احتجاجی کیمپ میں کیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3912 دن مکمل ہوگئے۔ سماجی کارکن حوران بلوچ، حمیدہ ہزارہ، صغیر زہیر بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
کوئٹہ شہر میں بارش اور سرد موسم کے باوجود لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہر طرح کے حالات میں ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نصب صدی سے عرصے سے ظلم کے خلاف صدائے بلند ہے جو اسلام آباد کے ایوانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ پرامن اور جمہوری انداز میں دلیل اور منطق کی جنگ ہارنے کے بعد ریاست پاکستان نے اپنی پوری ریاستی قوم بلوچ کی آواز دبانے کے لیے جھونک دی ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین کے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فوجی کاروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں پر بمباری کی جارہی ہے جبکہ گھروں کو نذر آتش کرنے سمیت خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
دریں اثنا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 13 فروری 2020 سے لاپتہ کو بازیاب کرنے کی اپیل کی ہے۔
وی بی ایم پی کے مطابق ذاکر ولد بشام کچہری میں وکیل کے ساتھ ٹائپنگ کا کام کرتا تھا جو 13 فروری 2020 کو شاندار جنرل اسٹور نزد عوامی پمپ سریاب پر سامان رکھ کے واپس آنے کا بول کے واپس نہیں آیا۔ لواحقین نے جبری گمشدگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
وی بی ایم کے مطابق محمد گل جتک کے اہلخانہ نے بروری تھانہ میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ محمد گل جتک کو 30 اکتوبر 2019 کو بروری روڑ کوئٹہ سے منہ پر ماسک چھڑائے ہوئے افراد نے سرف گاڑی نمبر 9351_BD میں زبردستی لے گیے۔
لواحقین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گل محمد جبری گمشدگی کا شکار ہوا ہے۔