کورونا وائرس: یہ ایثار اور قربانی کا وقت ہے
“تحریر : رچرڈ فریڈمین “نیویارک ٹائمز
کیا آپ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہیں؟ کیا آپ کو یہ پریشانی ہے کہ آپ اس کیلئے مناسب طور پر تیار نہیں ہیں؟ تو آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے مجھے اپنے کئی مریضوں کی طرف سے فون کالز اور ای میلز موصول ہوئی ہیں، جس میں انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنی اینٹی ڈپریشن اور اینٹی اینگزائٹی ادویات کو دو یا تین گنا کرسکتے ہیں، تاکہ آنے والے دنوں میں ان کے پاس ادویات کا وافر ذخیرہ موجود رہے۔
ملک بھر میں لوگ قرنطینہ یا خوراک کی کمی کے خوف سے کھانے پینے کی اشیاء کا پیشگی ذخیرہ کررہے ہیں، اسی وقت مقامی میڈیکل سٹورز سے purellکمپنی کے سینیٹائزر غائب ہوچکے ہیں اور آن لائن بھی دستیاب نہیں ہیں۔
کسی خطرے کی موجودگی میں اپنی حفاظت کی خواہش کی مجھے اچھی سمجھ آرہی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ اگر میں اپنے مریضوں کیلئے میڈیسن کی روزانہ خوراک بڑھا دیتا ہوں تو پھر دیگر مریضوں کو اپنی ضرورت کی ادویات نہیں ملیں گی، چنانچہ میں ہچکچاتے ہوئے ان کی درخواستوں کو مسترد کردیتا ہوں۔
بطور سائیکاٹرسٹ میں اپنے مریضوں کو اکثر یہ بتاتا ہوں کہ ان کا خوف اور اینگزائٹی حقیقی صورت حال کے مطابق نہیں ہے، اور اکثر وہ میری بات کو سمجھ بھی جاتے ہیں، مگر جب خوف کا باعث کوئی سر پر منڈلاتی موذی وباء ہو تو سب کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں۔
اس وقت گھبرائٹ کی وجہ بڑی واضح اور قابل ِفہم ہے، کورونا وائرس ایک ایسا خطرہ ہے، جس کے بارے میں یقین سے اور پیشگی کچھ کہنا ممکن نہیں ہے، یہ اس وقت ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے، کیونکہ صدیوں کے ارتقاء کے بعد ہمارے ذہن نئے خطرات پر جارحانہ ردعمل دینے کے عادی ہوچکے ہیں، کسی نامعلوم آفت اور مصیبت پر تھوڑی کوشش کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ پھرتی اور مستعدی دکھانا ایک محفوظ تر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے اس کا ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ ہم نئے خطرات پر ممکنہ رسک کو کہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، میں آپ کو اعداد و شمار کی مدد سے حوالے دے سکتا ہوں کہ آپ کے کسی روزمرہ خطرے سے مرنے کے امکانات کورونا وائرس سے مرنے کے خطرے سے کہیں زیادہ ہیں، مگر مجھے شک ہے کہ آپ کو میری بات پر یقین نہیں آئے گا، مثال کے طور پر سنٹرز فار ڈیزیز اینڈ پریویژن کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار سترہ میں ایک لاکھ انسٹھ ہزار امریکی شہری حادثات میں، جبکہ چھ لاکھ اڑتالیس ہزار امریکی حرکت قلب بند ہونے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
آپ کے مطمن نہ ہونے کی وجہ بڑی سادہ سی ہے، جس طرح ہم کسی نئے خطرے کے بارے میں اپنے اندر ایک بدترین خوف پیدا کرلیتے ہیں، اسی طرح محفوظ ترین حکمت عملی یہ سمجھی جاتی ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ خطرے کے بارے میں اس کی شدت سے کم اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ ہم ان کے بارے میں عادی ہوچکے ہوتے ہیں، اس طرح ہم جب کسی رسک کا تخمینہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
اس بات کا اچھا پہلو یہ ہے کہ ہمارے پاس خطرات کے باوجود اتنی استعداد ضرور پائی جاتی ہے، جس کی مدد سے ہم کسی وباء کے پھیلنے کو کم سے کم کرسکتے ہیں، خاص طور پر ہم ایسا ہمدردانہ طرزِ عمل اختیار کرلیتے ہیں، جس سے ہر کسی کی بھلائی ہوسکتی ہے۔
اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں پورا یقین تو نہیں ہے، مگر ایسا ممکن ہے کہ اگر آپ بیماری کی حالت میں اپنی ملازمت کی جگہ پرجائیں گے تو اس سے آپ کے دیگر ساتھیوں کو بھی انفیکشن ہوسکتی ہے، تو کم لوگ اپنے گھروں میں رکنے پر آمادہ ہوں گے، لیکن جب انہیں یہ کہا جائے کہ اگر آپ بیماری کی حالت میں اپنی ملازمت پر جاتے ہیں تو آپ کے ساتھیوں کو بھی یقیناََآپ والی بیماری کی انفیکشن ہوجائے گی تو وہ گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے، باالفاظ دیگر کسی خطرے کے بارے میں محض امکان ظاہر کرنے کے مقابلے میں اس کے یقینی ہونے پر زور دینے سے لوگوں میں ایثار اور قربانی کی زیادہ تحریک پیدا ہوتی ہے۔
اس حقیقت میں دنیا کیلئے یہ سبق مضمر ہے کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں کو چاہیے کہ عوام کو یہ واضح انداز میں بتائیں کہ اگر ہم کسی وباء کے پھوٹنے کی صورت میں خود غرضی پر مبنی رویہ اپنائیں گے، مثلاََ ہم بیماری کی حالت میں اپنی جائے ملازمت چلے جاتے ہیں یا اپنے ہاتھ مناسب طریقے سے نہیں دھوتے تو ہم اپنی پوری کمیونٹی کی صحت کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کرنے کا موجب بنتے ہیں۔
لوگوں میں بے لوث اور مثبت رویے کو فروغ دینے کے اور بھی کئی طریقے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر ایک اور سٹڈی میں اس وقت لوگوں کی دماغی سرگرمی کا جائزہ لیا گیا، جب وہ ایک ایسی گیم کھیل رہے تھے، جس میں ان کے پاس فراخدلی سے کچھ رقم کا ایوارڈ دینے یا کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالی ایوارڈ کی رقم روک لینے کا چوائس موجود تھا، ریسرچرز نے دیکھا کی جب اس سٹڈی کے شرکاء نے کود غرضی پر مبنی فیصلہ کیا تو ان کے دماغ کا ریوارڈ سنٹر والا حصہ متحرک ہوگیا اور جب انہوں نے فراخدلی والا فیصلہ کیا تو ان کے دماغ کا ہمدردی والا ریجن روشن ہوگیا۔
اس سٹڈی سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر لوگوں کو دوسروں کے بارے میں سوچنے کی تعلیم و تربیت دی جائے تو ان کے اندر اپنے دوسرے ساتھیوں کیلئے ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اور وہ اس انداز سے بھی سوچنا شروع کردیتے ہیں ان کے ہمدردانہ رویے سے کس طرح دوسرے لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ کسی بھی پر خطر صورت حال میں ہمیں اپنے دوسرے انسانوں کے فائدے کیلئے مل جل کر کام کرنا چاہیے، خاص طور پر مشہور و معروف شخصیات کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ہمیں صحت کے اعداد و شمار فراہم کریں یا ہمیں یہ نصیحت کریں کہ ہم نے اپنے ہاتھ دھونے ہیں یا کس طرح دھونے ہیں، بلکہ وہ لوگوں کو یہ واضح اور پر زور پیغام بھی دیں کہ جب ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوں تو ہمیں اپنی ملازمت کی جگہ جانے یا بلا ضرورت سفر کرنے سے احتراز کرنا چاہیے اور ہمیں اپنی فوری ضرورت سے زیادہ خوراک اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی بھی نہیں کرنی چاہیے، تاکہ سب کیلئے ان کی سپلائی جاری رکھی جا سکے، جو کہ معاشرے میں ناگزیر ہے۔
مگر ہمیں اس مقصد کیلئے ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہوگی، جو مورال اتھارٹی رکھتے ہوں اور وہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراکر ہماری فطرت کے ان زاویوں کو بھی متحرک کرسکیں کہ اس خطرناک وباء کے مقابلے کیلئے ہم سب متحد اور اکٹھے ہیں
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔