کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3913 دن مکمل ہوگئے۔ خاران سے سیاسی و سماجی کارکن غلام دستگیر بلوچ، نور محمد اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچ پرامن جدوجہد کو دبانے اور کمزور کرنے کے لیے بلوچ فرزندوں کی بلاامتیاز جبری گمشدگی اور قتل کا آغاز گذشتہ سالوں میں کیا گیا جو تاحال جاری ہے۔ پاکستانی خفیہ ادارے اور ان کی ذیلی سیکورٹی ادارے فرنٹیئر کور اور تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ گروپس اپنے خفیہ عقوبت خانوں میں بلوچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے اس وقت پچاس ہزار سے زائد افراد پاکستانی خفیہ اداروں کی قید میں ہیں جن میں تین سو سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ دانشوروں، طلبا، ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے افراد کو ٹارگلنک کے ذریعے شہید کیا گیا جبکہ چار سو کے قریب بلوچ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ اسیران اور شہدا کے لواحقین انصاف کے حصول کیلئے ایک منظم تحریک چلارہے ہیں بین الاقوامی اداروں سمیت اقوام متحدہ بلوچ جدوجہد سے باخبر ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لوگوں کو قتل کرنے میں پاکستانی خفیہ ادارے اور فوج ملوث ہیں اور اس حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کو یہ سلسلہ بند کرنے کا کہا گیا ہے۔