وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 3910 دن مکمل ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان (ہَکپان) کے چیئرپرسن بی بی گل، سماجی کارکن حمیدہ نور، حوران بلوچ اور دیگر افراد شامل تھیں۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ جنگی جرائم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست کے خلاف عالمی قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لاتے ہوئے بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و جبر سے نجات دلائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی توجہ بلوچستان میں جاری آپریشن، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، تشدد زدہ لاشیں ملنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب مبذول کرائی گئی جس روز سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ پاکستان میں موجود تھے اس دن بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کراچی میں سراپا احتجاج تھے جس کا مقصد اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک دس ہزار سے زائد بلوچوں کو تشدد کا نشانہ بناکر ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینکی جاچکی ہے اور اس عمل کو بین الاقوامی میڈیا بھی ناپسندیدہ قرار دیتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ ہم اپنے تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، بلوچ سیاسی کارکنان کی ماورائے آئین گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے نہ صرف ریاست پاکستان پر دباو ڈالیں گے بلکہ بلوچ قوم کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لیے اپنا موثر اور عملی کردار ادا کریں گے۔