بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج 3926 دن مکمل ہوگئے۔ سبی سے سیاسی و سماجی کارکن عبداللہ بلوچ، عبدالغفار بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی رہنما ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ان میں بعض کو زیر حراست شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی ظالمانہ ریاستی کاروائیاں تسلسل سے جاری ہیں۔ بلوچ افرادی قوت کو ختم کرنے اور بلوچ قوم کے اندر خوف و حراس پھیلانے کی احمقانہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں تاکہ اس وحشیانہ حکمت عملی کے ذریعے بلوچ فرزندوں کے لواحقین کے پرامن جدوجہد کو کچل سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قومی مسئلہ بین الاقوامی سطح پر ایک سنگین انسانی اور حل طلب تنازعہ بن چکا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ، برطانوی پارلیمان کے نمائندگان بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، اجتماعی قبروں کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ قومی مسئلے کے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی پزیرائی سے پاکستان کی ربڑ اسٹیمپ اسمبلیوں، جانبدار ذرائع ابلاغ، بے حس عدلیہ، متعصب سول سوسائٹی، سیاسی جماعتیں اور اعلیٰ سطحی حکومتی اجلاسوں میں بلوچ قوم و بلوچستان کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی دہشتگردی کے مرتکب پاکستان کے بدنما وحشی چہرے پر انسانیت، تہذیب یافتہ ہونے کا جھوٹا ماسک لگاکر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباو کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بازیاب ہونے والے افراد کے مجرموں کا کھوج لگاکر انہیں سزا دینے کی بجائے ان کی بازیابی کو احسان کے طور پر پیش کرکے ہر کوئی سہرا اپنے سر باندھتا نظر آتا ہے لیکن مجرموں کو سزا دینے کی بات کوئی نہیں کررہا ہے۔