کلچر ڈے نہیں، لاپتہ افراد چاہیئے
تحریر: ماہ زیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قوموں کی شناخت کلچر اور زبان سے ہوتا ہے، مگر کیا اس وقت بلوچ، کلچر یا اس جیسے تہواروں کو منانے کی پوزیشن میں ہے؟ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لوگ لاپتہ ہیں، مائیں اور بہنیں اپنے بیٹوں اور پیاروں کی راہ تکتے تکتے موت کی آغوش میں سوتے ہیں اور انہیں اپنے پیاروں کا دیدار تک نصیب نہیں ہوتا اور وہ اسی امید کے ساتھ سڑکوں اور پریس کلبوں کے سامنے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں کہ شاید کوئی انکے آنسووں کو روک سکیں اور زندانوں میں سے کوئی انکے لخت جگروں کو واپس گھر لاسکے۔
کیا یہ وقت بلوچ کلچر ڈے جیسے تہوار منانے کی ہے اور کلچر ڈے کون اور کس لئے مناتا ہے؟ ہم سب کو معلوم ہے اس دو مارچ نامی کلچر کے نام پہ کون کس دھندے کو کہاں سے چلارہا ہے، اس کے پیچھے کون ہے اور جو سامنے ہیں، ان لوگوں کی چابی کس کے ہاتھ میں ہے۔ میں یہی سمجھتی ہوں، اس دو مارچ والے کلچر ڈے کے نام پہ بلوچی موسیقی، شاعری، اور زبان بھی ریاستی کلچر ڈے کے نام پر ٹیشو پیپر کی طرح استمعال ہو کر ڈسٹ بن میں پھینکے جارہے ہیں۔
بلوچ سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنا اور پھر انہیں مارکر، انکی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنا، معمول بن چکا ہے، اس لئے کچھ ادیب نما لوگ ڈر کی وجہ سے اپنے راستے کو بدل کر بخشو سے ہاتھ ملا چکے ہیں، اپنے ایمان کو فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کر رہے ہیں، پتہ نہیں کچھ پردہ پوش دانشور اس جنگ زدہ قوم کے لئے کیوں جہنم کے گیٹ کے چوکیدار منتخب ہوتے جارہے ہیں۔
ان دانشوروں کے کچھ رشتے دار اور کچھ کہ بھائی شہید بھی ہوچکے ہیں اور اغوا بھی ہوچکے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ذہنی حوالے سے مفلوج بھی ہوئے ہیں، پھر بھی شہیدوں کے خون کے اُوپر پاوں رکھ کر اور بولان کی جوانوں کی راہ میں حائل ہوکر اسلام آباد اور کراچی، کوئٹہ کے چھاونیوں میں تحریک کو کوانٹر کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ کلچر، یہ جناح کا کمال، کچھ بلوچ نام نہاد ادیب، شاعر اور مصنف جو کہ اپنے ایمان کو بخشو کی ترازو میں رکھ کر اسلام آباد کے چوک میں تولنا چاہتے ہیں۔ وہ صدام شہید کی یاد اور بیبگر بلوچ کی قربانی کو کیوں نہیں دیکھ سکتے۔ ان مردہ تابوتوں میں دفن، بے ضمیر پیٹ پرست لکھاری اصل حقائق سے دور جا چکے ہیں۔
میرا اُمید اپنے قوم کے اُن نوجوانوں سے یہ ہے کہ اصل چہرے کو پہچانیں اور جو عمل ریاست کی طرف سے ہورہاہے اس کی بھرپور مذمت اور بائیکاٹ کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔