کرونا وائرس – COVID 19 – کلثوم بلوچ

203

کرونا وائرس – COVID 19

تحریر: کلثوم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوروناوائرس ایک عالمی وبا جس نے کچھ ہی وقت میں پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے لیا، ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام ممالک کو اپنے بناۓ ہوئے نظام کی طرف غور اور فکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ خواہ وہ بڑے سے بڑا سرمایہ دارنہ نظام ہو یا پاکستان جیسا ملک جہاں ڈیفینس بجٹ 13 ٹریلین ہو، اور صحت اور ہسپتال کی سہولیات ملک بھر میں نہ ہونے کے برابر۔ اسکی مثال آپ پاکستان کے سب سے بڑےشہر کراچی سے لے سکتے ہیں جہاں ڈاکٹرز کے لئے سہولیات اور ہسپتالوں میں لوگوں کے لئے جگہ نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا اِس مرض سے ابھی آمنا سامنا ہی ہوا ہے نہ جانے آگے کیا ہوگا؟ باقی صوبے خاص کرکے بلوچستان کے لوگوں تک ابھی جان کاری بھی کرونا وائرس کے حوالے سے نہیں پہنچی ،حفاظتی انتظامات تو دور کی بات ہیں ۔

کورونا وائرس اور اسکی علامات:

کورونا وائرس کو باقی وائرس کی طرح اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے حیاتی اجسام کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وائرس اُن حیاتی اجسام میں رہ کر انفیکشن اور نقصان دینے کا باعث بنتی ہے، کرونا کے لیے وہ حیاتی اجسام خاص انسانی جان ہے۔

کورونا وائرس بخار سے شروع ہو کر خشک کھانسی تک آتی ہے ، کچھ ہی دنوں میں تھکاوٹ اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور جس سے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ انفیکشن کے فوری بعد علامات ظاہر نہیں ہوتے کم از کم دو ہفتے کا وقت درکار ہوتا ہے۔

میں اس بات کو واضح کرتی چلوں کہ یہ وائرس علامات کو ظاہر کر نے سے پہلے انفیکشن کو ضرور ایک فرد سے دوسرے فرد تک منتقل کرتا ہے۔ اور اِسی وجہ سے یہ وائرس اتنی جلدی پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔

کورونا وائرس سے کیسے بچا جاۓ !

باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ہجوم اور لوگوں سے فاصلہ اختیار رکھنا، مستقل ماسک کااستعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال شامل ہیں ۔

کورونا وائرس کا علاج:

فل وقت کورونا وائرس کو کچھ بنیادی طریقوں سے قابو کیا جا رہا ہے، چونکہ اسکی ویکسین ابھی تک موجود نہیں ہے مگر دنیا کے تمام سائنسدان اس وقت ویکسین بنا نے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہیں۔ ان تمام باتوں میں اچھی بات یہ ہے کے لوگ اِن بنیادی طریقوں سے صحتیاب بھی ہو رہے ہیں۔چین اسکی سب سے بڑی مثال ہے جو ہمارے سامنے ہے، جہاں سے یہ وبا شروع ہوا تھا اور آج وہاں سے ختم کردیاگیا۔

اِس کورونا نے اب تک دنیامیں 16,869 سے زائد افراد کو ہلاک اور 378,927 لوگوں کو متاثر کیا ہے، جن میں خلیجی ممالک سے لیکر یوروپی ممالک، جنوبی افریقہ اور جنوبی ایشیا شامل ہیں۔

پاکستان اور کورونا وائرس:

اب پاکستان میں حال یہ ہے کے کورونا کا رونا اور اِسکی سنجیدگی یک طرفہ نظر آ رہی ہے صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اِس سنگین اور تباہ کن مسئلے پر بھی الگ الگ پریس کانفرنسز کرتے دکھائی دے رہے ہیں، جس میں صوبائی نمائندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاق تعاون نہیں کررہی۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستانی عوام بھی اچھی خاصی لاپرواہی اور بے فکری میں مبتلا ہیں، جبکہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہیں جنکی رسائی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک ہیں۔ اب یہاں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں, کیا وفاقی حکومت خود کو اتنا غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے یا عدم تحفظ کا شکار ہے یا کچھ اور ؟ کیا ہماری حکومت اور عوام اس وائرس سے جو بدترین نتائج جو چین اور اٹلی میں نظر آئے اُس سے انجان ہے یا معاملہ جو ہوگا دیکھا جاۓ گا والا ہے؟ ان تمام معملات میں سندھ حکومت سامنے آہی اپنی مدد آپ کے تحت اور بغیر وفاق کے گوہیڈ کے اور عملی طور پر بھی پیش پیش نظر آ رہی ہے، اس حوالے سے بات سہولیات کی ہو یا کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی کی ہو یا لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کی بات ہو ۔

جبکہ کیسز بڑھنے کی وجہ سے پنجاب حکومت بھی حرکت میں آگئی اور لاک ڈاوُن کا اعلان کردیا، کیونکہ اپنے ملکی حقیقت کو جان کر فوری طور پر عمل کرنا ہی ایک بروقت فیصلہ ہے ۔

کورونا اور بلوچستان :

بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے حکومت اپنے تمام مناسب انتظامات کررہی ہے اور بلوچستان میں سب ٹھیک ہیں کوئی دہشت اور خوف کورونا کے حوالے سے نہیں ہے ۔ جبکہ بلوچستان کے جنگ زدہ ماحول میں جو دہشت اور خوف ہے وہ ہمیں بھی معلوم ہے، خواہ حکومت کو نہ معلوم ہوں !

چلیں جی آگے چلتے ہیں، بلوچستان میں صورتحال یہ ہیں کہ ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں ضلع ہو یا تحصیل اور کوئٹہ شہر کے حالات سے بھی ہم واقف ہیں ۔

ہاں جی اگر کچھ ہسپتال ہیں تو ڈاکٹرز نہیں، اگر ڈاکٹرز ہیں تو وہاں مریض، ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز کے لئے کوئی سہولیات موجود نہیں. عام لوگوں کو تو آپ بھول جائیں ڈاکٹرز کے لئے ماسكس تک دستیاب نہیں ہیں، ٹیسٹنگ کٹس موجود نہیں ہیں۔ کچھ دن پہلے گلگت میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی موت اسی غفلت کی وجہ سے ہوئی کے ڈاکٹرز کی حفاظت کے لیے وہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا ۔ اور کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر ایران سے آئے زائرین کی ویڈیو جو ایک قرنطینہ سینٹر کی ہے اس میں صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اُن تمام زائرین کے ساتھ برتاوُ رکھا گیا اور کس طرح ان تمام زائرین کو ایک ساتھ بڑے ہال نما کمروں میں رکھاگیا۔ جبکہ اُن میں تمام لوگ انفیکٹڈ نہیں تھے ۔

بلوچستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی کا کچھ پتہ نہیں، کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کے لئے انٹرنیٹ کی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں لہٰذا دنیا میں کیا ہو رہا ہے انکو کیسے پتہ چلے گا؟ ان تمام صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے بلوچستان حکومت کو ابھی تک نہیں پتہ کے ہنگامی صورتحال کو کیسے دیکھنا چاہیے، ان سے کیسے نمٹنا چاہیے اور کیا پروٹوکولز دینے چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

یاد رہےاس وقت پورے پاکستان میں 900 کورونا کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب بات آجاتی نہ صرف حکومت بلکہ ہر فرد پر کہ وہ سماجی ذمہ داری کو سمجھے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں تک اس کورونا وائرس کے حوالے سے بیداری اور آگاہی پر کام کرے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔