میری سرزمین، میری مرضی
تحریر: جویریہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان بدقسمتی سے ایک ایسے خطے کے ساتھ منسلک ہے، جہاں پر ہر ایک طرف سے مختلف نعروں کی صدا بلند ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے عورتوں کی جانب سے جو نعرے سنائی دے رہے ہیں اور پلے کارڈز پر جو سب دیکھ رہے ہیں کچھ الگ ہی انداز ہے “میرا جسم میری مرضی” اپنے موزوں کو خود ڈھونڈو وغیرہ۔ لیکن کچھ لبرل ازم کے نام پر ان مطالبات کو حق قرار دے رہے ہیں، جبکہ اکثریت اس کے خلاف دکھائی دیتی ہے، تو یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کیا پاکستانی عورتوں کو انکے حقوق میسر نہیں یا یہ ایک چال ہے یا ریاست مدینہ کے دعوے دار مساوی حقوق دینے میں ناکام ہیں یا یہ محض عورتوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے خاص کر نوجوان لڑکیوں کو؟
دوسری جانب بلوچستان میں ہمیں جن نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے، ان سے صاف یہی نظر آتا ہے کہ ہمیں آزادی چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی، یہ نعرہ ایک مرد سے آزادی اور مرد سے تحفظ کے مطالبے کے لئے نہیں بلکہ ان عناصر کے خلاف ہے جو کے عورتوں کی آواز کو دبانے کی ہر ناممکنہ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل ویمن ڈے کے حوالے سے اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جن حقوق کے لیے عورتوں نے مارچ کیا اور جس مناسبت سے اس دن کو منایا جاتا ہے ایک مظلوم کو طاقتور بنانے، اس کو یہ اختیار دینے کا کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہے لیکن اس مارچ میں ہمیں مرد ذات سے علیحدگی اختیار کرنے کا کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا، اسکے علاوہ اگر تاریخی حوالے سے عورتوں کے بہادری اور کامیابی کے قصے ہمیں ہر قدم پر ملتی ہیں، عورت نے جہاں پر اپنے فرائض کو اچھے طریقے سے سرانجام دیا وہیں پر جنگوں میں بھی ہمیں انکے قصے مرد کے شانہ بشانہ ملتے ہیں، چاہے وہ اسلام کی پہلی شہید عورت سمعیہ ہو یا پھر فلسطین کی پہلی ہائی جیکر خاتون لیلیٰ خالد کی۔ مگر افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر بلوچستان کی عورت مارچ کرنے نکلی ہے تو اس ظلم کے خلاف جو کہ ماضی کی ایک یاد تازہ کرتی ہے ہم بلوچستان کی عورتیں نکلے ہیں تو اس ظالم یزید کے خلاف جس نے بی بی زینب جیسی ہستی کا مذاق بناکر انہیں بازاروں میں بغیر چادر کے لیکر گئی وہی یزیدیت کا دور دورہ بلوچستان میں بھی ہے جسکی تازہ مثال بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور اس کے ساتھ ساتھ بی۔ایم۔سی کی طالبات پر بھری چوک پر لاٹھی چارج ہے۔
ایسے کونسے ظلم کے ضابطے یہاں بلوچستان کی بیٹیوں کے ساتھ نہیں ہوئے ہیں، شال کی سردی میں بھی رات گئے وہ سراپا احتجاج ہیں، پہلے یہاں کا مسئلہ تو یہی سمجھا جاتا کہ بلوچستان میں عورتوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد ہے تو آج یہی بلوچستان ایسے بیٹیاں پیدا کررہا ہے کہ پوری دنیا میں انہوں نے بلوچستان کا نام اونچا رکھا ہوا ہے، ان میں سے ایک جلیلہ حیدر بھی ہیں۔ ابھی تک ایسے ذہنیت کے مالک بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ بلوچ عورتوں کو یرغمال کیا جاتا ہے تو یہ یرغمالی بلوچ نہیں بلکہ اس میں کچھ اور ہاتھ ملوث ہیں جو کہ ہر طریقے سے بلوچ عورتوں کو یرغمال کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کا بھی ہمیشہ ذکر کیا جاتا ہے لیکن پسماندگی بلوچوں میں نہیں بلکہ کچھ ذہنوں میں موجود ہے جو طرح طرح کے ہتھکنڈوں اور چالوں کے ذریعے بلوچ بیٹیوں کو پیچھے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں بلوچستان میں عورت کی پابندی کی بات کی جاتی ہے تو میں یہ بات یاد دلاتی چلوں کہ کچھ سال پہلے جو لانگ مارچ ہوئی تھی کوئٹہ سے اسلام آباد کی جانب تو اسکی قیادت میں بھی ایک بلوچ بیٹی کا ہی کردار تھا جو حصول انصاف کی خاطر نکلی تھی مگر افسوس کہ فرزانہ ساتھ بہت سی بہنیں اور مائیں آج بھی اپنے پیاروں کے انتظار میں انکی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو بذات دونوں اطراف کے مارچ میں ایک ہی جنس (عورت) سے انکا تعلق ہے لیکن ان کے سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک طرف جہاں احتجاج ہے وہاں مرد کو ظالم قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف جہاں مرد کے لئے احتجاج کیا جارہا ہے، وہاں پر مرد مظلوم نظر آتا ہے۔ ایک طرف عورت محض اپنا راج جمانے کے لئے نعرے لگا رہی ہیں، تو دوسری طرف عورت مرد کے تحفظ کے لئے دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہے، جہاں کچھ عناصر مردوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔ جتنا بلوچستان میں عورتیں سامراج کے ظلم کے زد میں ہیں اسے ظلم کہیں اور بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسکی اصل وجہ میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے نہیں بلکہ میری سرزمین میری مرضی کا مطالبہ ہے جس پر کئی سالوں سے قابض حکمرانی کررہے ہیں۔
یہاں عورت مارچ کا مقصد اپنے جسم کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اپنی تعلیم اپنی عصمت اپنی آبرو اپنی تعلیم اپنی مستقبل بچانے اور اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر ہے۔ یہاں عورت نکلی ہے تو اپنے گھر کے محافظ کے جان کی سلامتی کے لئے جنہیں کئی سالوں سے زنداں کی زنگ آلود بیڑیوں سے جکڑا گیا ہے۔ یہاں عورت نکلی ہے تو اپنے قلم کی خاطر۔ یہاں عورت نکلی ہے تو اپنی چادر بچانے جو کہ آگ کی زد میں آچکی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ بلوچستان کی بیٹیاں حق پر ہوتے ہوئے بھی دہشت گرد کہلاتے ہیں۔ قانون کے خلاف ورزی کے نام پر اٹھا لئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم مجرم اور میرے جسم کے نعرہ لگانے والے مظلوم کا لقب پاتے ہیں۔
وہ کونسا ظلم ہے جسے ہم نے نا سہا ہو۔ رات کے اندھیرے میں ہاسٹلوں سے گھسیٹ کر بلوچ بیٹیوں کو نکالا جاتا ہے تعلیم کی خاطر میرے مرضی کے نعرے لگانے والوں نے جیل نہیں دیکھا بلکہ بلوچ بیٹیوں نے دیکھا ہے۔بھوک ہڑتالی کیمپوں کی اذیتیں ہم نے دیکھی ہیں۔ اٹھائے بھی ہم جاچکے ہیں۔ فوجی آپریشنز میں بھی ہم مارے گئے ہیں اور دہشت گرد کا لقب بھی ہمیں ملا۔ ہم پھر بھی ظالم کہلائے گئے لیکن اپنے جسم کا نعرہ لگانے والے مظلوم کہلائے گئے فرق اتنا ہے کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے اور ہمارا تعلق بلوچستان سے۔
یہاں پر احتجاج کرنے والوں کی آواز کو یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ آپ آئین کے خلاف ہیں لیکن جو ریاست مدینہ کے وزیراعظم جیسے دعویداروں کے وجود کو ماننے اور اسکے حکم عدولی کرنے نکلے ہیں انہیں حق پر آواز بلند کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعوےدار اس بات سے شاید ناواقف ہیں کہ اسلام ہمیشہ مساوات کا درس دیتا ہے ظلم کا نہیں لیکن جہاں ظلم ہو مساوی حقوق کی پامالی ہو۔اسلامی تاریخ میں جہاں پر عمر جیسے حکمران ایک جانور کے موت پر بھی خوف کا شکار ہوتے ہیں تو یہاں پر جانوروں سے بدتر سلوک کرنے کو ملتا ہے دورِ حاضر میں محض ریاست مدینہ کا نام ہی نظر آتا ہے عملی طور پر نہیں۔جہاں پر ہمیشہ ظلم ہی ظلم ہو وہاں ہمیشہ بغاوت جنم لیتی ہے۔
جو نعرہ ہمیں بیدار کرے
جو نعرہ ظلم کے خلاف ہو
جو نعرہ حق پر ہو
جو نعرہ جدوجہد کا پیغام دے
وہ مارچ کرنے ہم نکلیں گے
جس کا نعرہ میری سرزمین میری مرضی ہو۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔