عورت مارچ
تحریر: زیرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بین الاقوامی قوانین کے مطابق معاشرے کے ہر فرد کو بلا تفریق سماجی، سیاسی و معاشی حق حاصل ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ بین الاقوامی قوانین ان کی دفاع کی خاطر کہیں لفاظی سے تو کبھی نت نئے اقدامات کے عرضی ضرور دیتی ہے۔ قوانین دراصل ہیں کیا؟ ایک سفید کاغذ کے ٹکڑے پہ بکھرے چند ایک احکامات جو انسان پہ صادر کئے گئے۔ آج جہاں ایک جانب تیسری دنیا کے ممالک میں جنگی جنوں آسمان کی اونچائیوں میں محو پرواز ہے تو دوسری جانب آسمان سے گرنے والے گولہ بارود جو زمیں پہ کسی ذات کو نشانہ نہیں بناتی بلکہ بغیر کسی صنفی تفریق کے ہر نشانے پہ آنے والے مرد و عورت کے چھیتڑے اڑا دیتی ہے۔ خیر جنگیں ہونگی تو قتل عام ہوگا اور جب قتلِ عام ہوگا تو لوگ مریں گے بلکل لوگ مریں گے نہ کہ عورت یا مرد ۔۔۔۔۔۔۔۔
سامراجی طاقتوں نے ہر وقت یا یوں کہوں کہ سامراجی قوتوں نے جب کبھی اور کہیں بھی کسی قوم کو اسکی قومی، سیاسی و تاریخی شناخت سے بیگانہ کرنا چاہا تو اندرونی انتشارات کے فروغ و سماجی بیگانگی جیسے جراثیم کو فروغ دیا افریقہ، آسڑیلیا، آئرلینڈ ودیگر ایشیائی ممالک میں انکے اثرات دیکھنے کو ضرور ملیں گے، جہاں (کل) کے سوال کو (جز) میں تحلیل کرنا چاہا یوں یہ سماجی بیگانگی اور ایک نئے سیاسی شناخت کا باعث بنی۔ جس سے collectiveness نہیں بلکہ otherness کا سوال مضبوطی سے سامنے آیا۔ یوں ایک اجتماعی شناخت خود اپنے اندر ہی اندر الگ الگ شناختوں میں بکھرنے لگی اور یہ پھیلاؤ صرف اس collectiveness کو ختم یا کمزور کرنے کےلئے ہی تھا اور ہے بھی، جسکا فوراً اثر سیاسی شناخت کو ہوتا جو ایک تحریک کی شکل میں منظم تھی یا ہے۔ ashsis nandy’s کئے لکھتے ہیں۔ کتاب post colonial questions میں۔
A history of colonisation in one of feminisation. Colonial power tends to identify subject people as passive , in need of guidance, incapable of govering themselves, romantic, passionate, having a disregard for rules, barbaric.
پچھلے سال عورت مارچ جو کراچی میں ہوا تھا، وہاں پلے کارڈز میں نعرے کہوں یا مطالبات دیکھنے کو ملے، جیسے کہ اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی، تم گھر لیٹ آسکتے ہو میں بھی آسکتی ہوں، کچھ اسی طرح جو براہ راست تو پاکستانی اشرافیہ کلاس کے باتیں تھیں۔ عورت مارچ میں کئی عورتیں تو ایسی تھیں جن کا تعلق نچلے طبقے سے تھا، جو ایمپسریس مارکیٹ صدر پہ خشک فروٹ بیچنے والے تھے اور کئی کا تعلق جھونپڑ پٹی سے تھا۔ جنہیں شاید یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ آپکے حقوق کی بات ہونے والی ہے، لہٰذا ضرور آنا۔ عورت مارچ کا مقصد عورت کی سیاسی آزادی پر ہو، انکی سیاسی تربیت کا باعث بنے نا کہ سماجی بیگانگی کا، مارچ کے شرکاء کا تعلق تو غریب طبقے سے ہے، مگر مارچ کرانے والے ڈیفنس اور کلفٹن کے رہنے والے ۔
پچھلے مارچ میں تمام پلے کارڈز سماجی و معاشرتی values کو چیلنج کررہے تھے، جو شہری زندگی کا بول بالا تھا urbanization کا عمل جو مثالی زندگی بسائی جاتی ہے اسکا اولین مقصد انسان جو مختلف زبان، ثقافت و مزاجوں سے تعلق رکھتے ہیں انکا ایک مشترکہ مسائل پیدا کرنا مثال کراچی میں رہنا والا ہر فرد سیاسی، سماجی و معاشی بحران کا شکار نظر آتا ہے، جہاں قومیت کو گلوبلائز کرکے ایک مشترکہ سوال کا خاتمہ عمل میں لایا گیا بلکہ اسی طرح دوسرے مشترکہ مسائل سامنے لائے گئے، جہاں قوموں کی مزاج بدل کر شہری مزاج میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہہاں یہ عمل اپنے پیچھے مختلف سوال چھوڑ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر قدیم زمانے سے آباد آبادی کو وہ سہولیات جو شہری زندگی کے بسنے کے باعث معدوم ہوچکے ہیں۔ سماجی و معاشرتی اقدار کا قتل عام جو نئی آبادی کے آتے ہی غالب ہونا۔ جہاں مشترکہ مسائل بنائے گئے، وہاں ایک اور مشترکہ اور قومی سوال کا قتل عام کیا گیا، بالکل اب اسی طرح چیزوں کو modernize کیا گیا اور مزاج پہ liberalism تھونپ کر تبدیل کردیا گیا۔
جہاں تک ترقی و ارتقاء کی بات ہے تو وہ عمل جاری و ساری رہتا ہے اور وقت آنے کے ساتھ ساتھ اسکے نشانات واضح ہونے لگتے ہیں اور یہی ارتقاء کا قانون ہے، مگر یہاں ارتقائی نہیں بلکہ ذبردستی و بیگانہ سا عمل رواں رکھا گیا ہے کہ بجائے اسکے سماجی اقدار میں ارتقائی تبدیلی لائے جائیں بلکہ جو چیز وجود رکھتی ہیں، اسے reject کیا جارہا ہے یہ rejection یقیناً زمیں پہ موجود نظریات کا گلہ گھونٹنے کا عمل ہے اور یہی سماجی و معاشرتی بیگانگی انسان کو اسکے ماحول سے تنہا تنہاء ایک فلیٹ میں بند کر دینے کا عمل ہے، جہاں انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں زندہ ہوں، فقط زندہ ہوں، حیف یہ بھی نامکمل ہے۔ بجائے اسکے کہ ہم نظریات کو جو فرسودہ ہوچکے ہیں، وجوہاتی بناء پر دیکھ سکیں بلکہ زمیں پر پنپنے والی ایک نئی تحریک کے بو کو محسوس کرکے ایک نیا جو اپنے اندر خود ہی قدیم ترین ہے اسے سامنے لا سکیں ۔ یوں انسانی سماج و معاشرہ ارتقائی عمل سے گذر کر تبدیل ہو سکتا ہے نا کہ لاہوری طریقے سے۔
اگر مرد مارچ کرسکتے ہیں تو عورت کیوں نہیں۔ ہر فرد کو سماجی، سیاسی و معاشی حق حاصل ہے کیونکہ معاشرتی ترقی کا دارومدار عورت و مرد کی مشترکہ جدوجہد و مساوات پر مبنی اعمال پر ہی ہے۔ کوئی قوم یا معاشرہ اگر مساوات و عدل پر قائم نہیں رہ سکتا، تو یہ اپنے پیچھے شاید معاشرے کے نام پر معاشرتی ڈمی چھوڑ جائیں۔
اگر میں بات اپنے سیاسی و سماجی آزادی کی کروں یا بلوچ سماج میں عورت کے کردار پہ بات کروں تو شاید آپ کو مطمئین نہ کرسکوں، لہٰذا موجودہ حالات کے تناظر میں سب چیزوں کو بغور جائزہ دیکھنے کے بعد ہمیں چند ایک بات پہ سوچنے کی، غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، بلوچستان جو اول روز سے جبری الحاق کے بعد جہد آزادی کے لئے قومی شناخت کے لئے، جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ جہاں قومی آزادی کی خاطر قومی سطح پر ہر ایک فرد اپنے جدوجہد کو مسلسل جاری کئے رکھا ہے۔
جب 1970 میں بلوچستان میں فوج کشی کی گئی تو بلوچ قوم کے ہر فرد کو ہراساں کیا گیا، تشدد کیا گیا، جبری گمشدگی اس روز ہی شروع ہوگئی تھی، اسکے بعد یہ تسلسل اب بھی برقرار ہے، فوجی آپریشنز کے دوران گھروں میں گھس کر عورتوں اور بچوں کو تشدد کو نشانہ بنایا جاتا تھا، تو کہیں بھی یہاں صنفی آزادی کا سوال نہیں ابھرا، اگر ابھرا تو قومی آزادی کا سوال کیونکہ یہاں مسئلہ صنفی نہیں بلکہ قومی ہے کیونکہ سامراجی قوتیں کبھی ہمیں مرد یا عورت کے نام پر تشدد کا نشانہ نہیں بناتیں بلکہ بلوچ ہونے پر تشدد کرتی ہیں۔ بلوچ سماج میں عورت کے کردار سے شاید ہر ایک فرد واقف ہے کہ ہم کہاں اور کس شکل میں موجود تھے۔ بانڑی کی دہلی کی جنگ کی کمانڈ سے لے کر بانک سمی کی سیاسی جدوجہد جو بلوچ سماج میں سیاسی آزادی کی ایک بہترین مثال کے طور پر وجود رکھتی ہے۔ کوئٹہ سے اسلام آباد مارچ ہو جہاں ہر بلوچ فرزند اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے دنیا کا طویل ترین احتجاجی مارچ تھا، اس مارچ میں آج کے عورت مارچ کرنے والے نے کیا رسپونس دیا یا سوشلسٹوں نے کیا رسپونس دیا اس پر بات کرنا، ہوا میں تیر مارنے جیسا ہوگا کیونکہ کسی نے ایک لفظ بھی زبان پہ لائے بنا، چپ سادھ لیا تھا کیونکہ سب کی زبان پر چھالے جو پڑ گئے تھے۔
“ابھی چند دن ہی پہلے ایک آرٹیکل پہ نظر پڑی ایک جناب عورت مارچ کرنے والے سے یہ اپیل کررہا تھا کہ بلوچ عورتوں کے مسئلے کو بھولنا مت یہی موقع ہے انکو ساتھ لے کر چلنے کا” ۔شاید یہ فیڈریشن کو بچانے کا ایک بہترین طریقہ ہوگا ۔ اور کئی لوگ بلوچ سماج جو غلام سماج ہے اسکی بربریت کی مثال دے رہا تھا مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ غلام سماج میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ عورت کے باطن سے کوئی بالاچ جنم نہ لے سکے، اس لئے تو عورتوں و مردوں کو سیاسی بیگانگی کا شکار بنایا جاتا ہے اور یہ سینڈے من سرداری نظام اسی کی تو زندہ مثال ہے۔
اہم بات کی جانب نشاندھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عورت کا سوال سماجی و معاشرتی ہے نا کہ سیاسی۔ مگر یہاں اسے سیاسی رنگ کا لبادہ پہنا کر سیاسی مسائل سے دور بھاگنے کا ذریعہ تلاش کیا جارہا ہے تاکہ وہ سوال جو سیاسی شناخت کی جانب ہر فرد کو یہ احساس دلانے کی کوشش ہے، اسے کمزور کیا جاسکے۔ کچھ دن پہلے ہی راجی نام سے ایک سوشل پروگرام سوشل میڈیا پہ دیکھنے کو ملا میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ یہ ایکٹوسٹ بلوچ ہیں۔
خیر یہاں ذاتیات سے بالاتر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی بلوچ سیاست نے قومی سوال کے لئے سیاسی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا؟ تو شاید اسکا جواب مثبت ہوگا کیونکہ کوئٹہ ٹو آسلام آباد مارچ کرنے والی عورتیں اپنے پیاروں کے لئے روڈ پہ نکل آئے، کیا عورت کا اپنے حقوق جو وہ سمجھتا ہے کہ اسکے خاوند بیٹے یا بھائی کا اس پر ہے یہ سیاسی سوچ کی نشانی نہیں اگر نہیں تو گھر سے کیوں نکلے۔ سیما شبیر کی بازیابی کے لئے شال کی سرد راتوں میں کیونکر بھیٹتی ہے، کیا سیاسی شعور کا حصہ نہیں۔ بانک سمی سے لے کر بانک ماہ رنگ کی جدوجہد سیاسی آزادی نہیں جو بلوچ سماج میں ایک عورت کو حاصل ہے کہ وہ یہ جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیونکر کرنا ہے اگر یہ سیاسی آزادی اسے حاصل نہ ہوتی تو بقول فیمنسٹوں کے وہ گھر میں پدر شاہی کے نیچے دب جاتی۔ مگر یہاں تو بلکل الٹ ہے، حانی گل آج بھی احتجاج میں بیٹھی ہے، فرزانہ مجید نے ذاکر کے بہن ہونے کا ثبوت دیا اور وہ نکلی سیاسی آزادی کا نعرہ لے کر ۔ آج بلوچ کا مسئلہ قومی ہے نا کہ سماجی، اگر صنفی مساوات کا سوال آج ابھرتا ہے تو یہ قومی تحریک کے لئے انفرادی سوال چھوڑ جاتی ہے، کیا وہ سماج کا حصہ ہے اگر ہاں تو بلوچ مائیں بانجھ نہیں ہوئیں بلکہ اپنے لخت جگروں کو چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا قومی تحریک کا ایک پختہ سیاسی و مسلح کمانڈر بنارہی ہیں۔
راجی کے نام سے چلانے والے زرا سوچیں تو راجی کے معنی میں کیا عورت اکیلے وہ سب کچھ کر پائیں گی کیا یہ لاہوری فارمولا بلوچ سماج پہ fit ہونے کے قابل ہے؟ کئی ایسا نہ ہو کہ یہ نظریات تھونپنے والے تمھارا سب کچھ چین کر نہ لے جائیں۔ اور وہ سب دے جائیں جو تمھارا شاید ہے ہی نہیں۔ جو تمھارے حالات و مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا وہ سیاسی و سماجی بیگانگی کا سبب بن سکتی ہے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔