بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں عورت مارچ کے حوالے سے تیاریاں مکمل کرلی گئی۔ کوئٹہ میں عورت الائنس کے تحت مارچ 8 تاریخ کو گیارہ بجے پریس کلب سے روانہ ہوگی جس میں تمام سیاسی جماعتیوں، طلبا تنظیموں سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگ شامل ہونگے۔
عورت الائنس کے رہنما حمیدہ نور کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے افراد کیساتھ ملکر عورت الائنس 15 نکات پر مشتمل مطالبات پش کریگی۔ جن میں بلوچستان میں خواتین کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان مطالبات میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے قانونی نکات بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے عام خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جاسکے اور ہمارے نعروں میں عام خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے۔
حمیدہ نور نے کہا کہ مارچ کے توسط سے بلوچستان کی دور افتادہ علاقوں میں لڑکیوں و خواتین کی تعلیم اور صحت کی سہولیات اور ہراسگی کے واقعات کے حوالے سے قانون سازی کی کوشش کی جائیگی۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے مطالبات میں بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور انتہائی اہم مسئلہ خواتین کی جبری گمشدگیوں کو بھی اجاگر کررہے ہیں کیونکہ بلوچ معاشرے میں عورت کو اہم مقام حاصل ہے جبکہ اس نوعیت کے واقعات ہمارے روایات کے برعکس ہیں۔ ہم عورت مارچ کے ذریعے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خواتین کس طرح کی زندگی گزار رہی ہے تاکہ اس حوالے سے پوری دنیا کو آگاہی دی جاسکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اور اس حوالے سے موجود قوانین پر عملاً پیش رفت کروانے اور کاروکاری کے الزام لگنے پر خواتین کو بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا جن کے تحفظ کے حوالے سے ہم بات کررہے ہیں۔
حمیدہ نور نے کہا کہ گھریلوں تشدد کے شکار خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے شیلٹرز اور دہشتگردی سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے حکومتی تعاون کے حوالے سے مطالبات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ان مسائل کو اجاگر کرنے کا مقصد ان پر قانون سازی کروانا ہے تاکہ اس سے خواتین کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوسکے۔
حمیدہ نور کا کہنا ہے کہ ہمارے مطالبات ہر اس عام خاتون کی ہے جو بلوچستان میں رہائش پزیر ہے۔ تمام اہل فکر افراد اس مارچ کا حصہ بنیں اور ان مطالبات پر عمل در آمد کروانے میں ہمارا ساتھ دیں۔