عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے پاکستان بھر میں ہونے والے عورت مارچ اور دیگر تقاریب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی اور بلوچ خواتین کا مقدمہ رکھا – بی ایس او
بی ایس او کی جانب سے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کراچی میں ہونے والے عورت مارچ میں بی ایس او نے لیڈنگ کردار ادا کرتے ہوئے وفد کے ساتھ کامیاب شرکت کی۔ بی ایس او عورت مارچ کراچی کی آرگناٸزنگ ممبر تنظیم رہی ہے کیونکہ بی ایس او عورت کی معاشی، سماجی اور سیاسی آزادی و برابری پر مکمل یقین رکھتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایس او کا ہمیشہ سے مٶقف رہا ہے کہ پورے سماج میں عورت پدرشاہی جبر کا شکار ہے مگر بلوچ عورت دوہری جبر کا شکار ہے جہاں پدرشاہی سماج کے ساتھ ساتھ ریاست بھی اس پر آٸے روز جبر کے نت نٸے طریقے آزماٸے جارہی ہے۔
عورت آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوٸے بی ایس او کراچی زون کی آرگناٸزر کامریڈ دروشم بلوچ نے کہا کہ آج وہ لوگ جو رجعت پسندانہ رویہ اپنا کر بلوچ سماج میں عزت، غیرت، ننگ و ناموس جیسی دقیانوسی الفاظ میں لپیٹ کر کہتے ہیں کہ بلوچ عورت آزاد ہے، اپنے گھر کی ملکہ ہے تو میں آج ان سیکڑوں خواتین کے سامنے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر بلوچ عورت آزاد ہے تو پھر اسکی سماجی حیثیت کیوں کمتر ہے، وہ کاروکاری کے الزام میں کیوں قتل کر دی جاتی ہے، اس کے سیاسی اعمال پر کیوں قدغن لگا دی جاتی ہے، اس کی شادی پر پسند کیوں نہیں پوچھی جاتی ہے، اس پر جبر کرکے اسے خاموش کیوں رکھا جاتا ہے، عورت کو گھر میں قید رکھ کر اسے مفت مزدوری کرائی جاتی ہے چاہے گھر گرہستی سنبھالنا ہو یا مرد کیلئے بچے پیدا کرنا اور پالنا۔ کیا اس جبر و ظلم اور پابندیوں کو آپ آزادی سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں تو میں بطور ایک سیاسی کارکن ان تمام تر ظلم جبر سے انکار کرتی ہوں۔ جس کا شعور مجھے میری مادر علمی تنظیم بی ایس او نے دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ عورت پر دوسری سب سے خطرناک جبر براہ راست ریاست کر رہی ہے جس نے بلوچ سماج کو مکمل طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ آئے روز بلوچ مرد و خواتین گمشدہ کر دیئے جاتے ہیں، انہیں ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ انہیں عقوبت خانوں میں بند کر کے تشدد کے ذریعے قتل کیا جاتا ہے۔ بلوچ طلبا و سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرکے ان کی ماٶں بہنوں بیوی بچوں سمیت پورے خاندان کو اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے۔ آج بھی بلوچ ماٸیں بہنیں سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دربہ در ہیں۔ آج بھی حانی بلوچ اپنی منگیتر کو ڈھونڈ رہی ہے۔ آج بھی ذاکر مجید کی ماں اپنے بیٹے کی رہاٸی کے لیے ریاست کو دوہاٸی دے رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ علاوہ ازیں اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے عورت مارچ میں بھی بی ایس او کے نمائندگان نے شریک ہو کر قومی جبر و استحصال سمیت خواتین پر ظلم و زیادتی کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔
بی ایس اور کوئٹہ کے کارکنان نے لاپتہ افراد کے کیمپ جا کر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔