ظفر اللہ جمالی کا تازہ شوشہ
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
بیشتر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنے کیلئے حال ہی میں جو اقدامات اٹھائے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ حسب سابق ایک سیاسی ”شوشہ“ ہے جس کا مقصد وقتی طور پر جنوبی پنجاب کے انتہائی غیر مطمئن ووٹروں کو طفل تسلی دینا ہے پنجاب کی سویلین و غیر سول اشرافیہ کسی بھی صورت میں پنجاب کی تقسیم کے حق میں نہیں ہے اس لئے جنوبی پنجاب ہمیشہ ایک سیاسی اسٹنٹ اور شوشا رہے گا۔
حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیراعظم بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور مقتدرہ کے دیرینہ وفادار رہنماء میر ظفر اللہ خان جمالی نے موجودہ صوبوں کی تقسیم پر زور دیا ہے انہوں نے نعرہ بلند کیا ہے کہ توڑ دو صوبوں کو پنجاب میں تین ،سندھ میں دو بلوچستان اور پختونخواء میں بھی دو نئے صوبے بنائے جائیں ،میر ظفر اللہ خان کے اس بیان سے خوش ہو کر ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کراچی میں ان سے ملاقات کی اور ان کی ندرت خیال کو سراہا۔
جہاں تک میر ظفر اللہ خان جمالی کا تعلق ہے وہ ہمیشہ مرکز پرست رہنماء رہے ہیں ان کے خاندان کی وابستگی قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ سے رہی ہے دعویٰ ہے کہ میر جعفر خان جمالی نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردر ادا کیا تھا تاہم ایوب خان کے دور میں وہ کونسل مسلم لیگ کے رکن بن گئے اور انہوں نے 1964ء کے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا میر جعفر خان کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جبکہ حاجی میر محمد مراد جمالی کو اعلیٰ تعلیم کیلئے آکسفورڈ بھیجا ان کے قتل کے بعد میر ظفر اللہ خان عملاً میر صاحب کی سیاست کے وارث بن گئے انہوں نے عملی سیاست کا آغاز1972ء میں پیپلز پارٹی سے کیا وہ کچھ عرصہ بلوچستان کابینہ میں وزیر بھی رہے 1988ء کے انتخابات میں وہ چند ماہ کیلئے بلوچستان کے متنازعہ وزیراعلیٰ بھی بنے تھے تاہم اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق ان کی جگہ شہید اکبر خان بگٹی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے انہیں پاکستان کا وزیراعظم نامزد کر دیا وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے منتخب ہوئے میر صاحب بڑی حد تک ایک گماشتہ اور تابع فرمان وزیراعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف کو اپنا ”باس“ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے وہ اگرچہ بلوچستان کے نمائندہ تھے لیکن انہوں نے بلوچ روایات اور تمکنت کو پامال کر کے فوجی آمر کے قدموں میں رکھ دیا میر صاحب اگرچہ کوئی قابل قدرکام نہ کر سکے البتہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے دو احکامات کو مسترد کر دیا ایک یہ تھا کہ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر بھوپالی کو امریکہ کے حوالے کیا جائے دوسرا یہ کہ نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کیا جائے جنرل مشرف نے میر صاحب کے دونوں دعوؤں کو غلط قرار دیا ہے چونکہ جنرل مشرف بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اس لئے ان کو ایک نامور شخصیت کی خدمات درکات تھیں اسی مقصد کیلئے انہوں نے بلوچستان کی ایک شخصیت کو وزیراعظم بنا کر تاثر دیا کہ پہلی بار انہوں نے سب سے پسماندہ صوبے کو اہمیت دی ہے لیکن قبضہ کی خاطر چند میگا منصوبوں کے بعد انہوں نے میر ظفر اللہ جمالی کو انتہائی تضحیک آمیز طریقے سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ تین ماہ کیلئے چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بنایا اس دوران انہوں نے شوکت عزیز کو دریافت کر کے وزیراعظم بنایا جس کا طویل عرصہ سے پاکستان سے تعلق نہیں تھا شوکت عزیز جنرل مشرف کے کالج سینٹ پیٹرک سے پڑھے تھے اور دونوں اردو اسپیکنگ مہاجر تھے بس یہی قدر مشترک تھی۔
اگر پیچھے جائیں تو 1972ء میں جب سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن گئے تو ”تھری جیرز“ یعنی جام جمالی اور جوگیزئی بڑے گھبرائے عطاء اللہ خان کے 9ماہ کے دور وزارت میں جام صاحب ایک بار بھی بلوچستان نہیں آئے بلکہ انہوں نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مطالبہ کیا کہ لسبیلہ کو دوبارہ کراچی یعنی سندھ میں شامل کیا جائے اسی طرح ظفر اللہ جمالی نے جیکب آباد میں ایک پریس کانفرنس میں ڈیمانڈ کی کہ نصیر آباد کو سندھ میں شامل کیا جائے وہ بلاوجہ خوفزدہ تھے اور ان کا خیال تھا کہ سردار عطاء اللہ عارضی مدت کیلئے وزیراعلیٰ نہیں بلکہ بلوچستان کے تاحیات حکمران بن گئے ہیں اور وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے جو مرکز کے آلہ کار ہیں اور جن کی بلوچستان سے کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے ان رہنماؤں نے اپنے علاقوں کی دوبارہ سندھ میں شمولیت کا مطالبہ کر کے واقعی میں ثابت کیا تھا کہ وہ مرکز کو فوقیت دیتے ہیں ون یونٹ کے قیام کے وقت لسبیلہ کو کراچی میں شامل کیا گیا تھا جو وفاقی علاقہ تھا جبکہ نصیر آباد ڈویژن کو سندھ کا حصہ بنایا گیا تھا 1970ء میں جب یحییٰ خان نے ون یونٹ بنا کر صوبے بنائے تو نیپ کے مطالبہ پر نہ صرف بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا بلکہ یہ دو علاقے بھی بلوچستان میں شامل کئے گئے البتہ نیپ کے رہنماء اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو گئے کہ ڈیرہ غازی کو بھی بلوچستان میں شامل کیا جائے عطاء اللہ خان کے 9ماہ کے دور میں ظفر اللہ خان سمیت دیگر رہنماء کراچی اور سندھ میں مقیم رہے اور انہوں نے بھٹو کو مجبور کیا کہ وہ نیپ کی حکومت برطرف کر دیں چنانچہ 15اپریل1973ء کو بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیا گیا اور سارے خوفزدہ رہنماء پہلی فرصت میں کوئٹہ میں وارد ہوئے اس سازش میں لگے رہے کہ کس طرح اکبر خان بگٹی سے بھی جان چھڑائی جائے چند ماہ کے بعد ان کی خواہش پوری ہو گئی وہ دن اور آج کا دن بلوچستان ان لوگوں کے قبضے میں چلا گیا جو بلوچستان کی جدوجہد میں شریک سفر نہ تھے مرکز نے جو بلوچستان کا کنٹرول اس وقت حاصل کیا وہ نہ صرف جاری ہے بلکہ یہ مزید سخت ہو گیا ہے قیادت کی دوسری نسل کو منتقلی اور زیادہ تباہ کن ثابت ہو گئی ہے ان کے بزرگ کچھ نہ کچھ تو اپنی بات رکھتے تھے لیکن بعد کے لوگوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر مرکز اور اس کے رہنماؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
میر ظفر اللہ خان نے نئے صوبوں کا جو شوشہ چھوڑا ہے یہ خیال طویل عرصہ سے راولپنڈی میں موجود تھا ضیاء الحق نے اپنے دور میں امریکی مصنف سلیگ ہیری سن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں 52 صوبے بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس جانب پیش رفت نہ کر سکے جنرل مشرف بھی کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے تھے لیکن انہیں سیاسی سپورٹ نہیں ملی یہ مقتدرہ کی شدید خواہش ہے کہ اگر پنجاب کو توڑنا ہے تو دیگر صوبے بھی توڑے جائیں اس کا اولین مقصد سندھ اور بلوچستان کی تقسیم ہے وہ کراچی کو علیحدہ صوبہ بنا کر اس کے وسائل اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔
بلوچستان کی تقسیم سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایک علیحدہ پشتون صوبہ بنایا جائے بلکہ اس سے مراد ساحلی علاقوں پر مشتمل ایک صوبہ قائم کیا جائے تاکہ ساحل کے بیش بہا وسائل اس کے تصرف میں چلے جائیں اسی لئے ایم کیو ایم نے ایک بار پھر کراچی کو سندھ سے علیحدہ کر کے نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ میر ظفر اللہ جمالی کے ذریعے بلوچستان کی تقسیم کا شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے اس وقت مرکز کی نظر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ہے ساحل کی ترقی کے نام پر نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے ایک ساحلی ڈویژن کے قیام کی تجویز بھی پیش کر دی گئی ہے یہ تو معلوم نہیں کہ کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جانا ہے یا دو علیحدہ صوبے تشکیل دینے کا منصوبہ ہے ساحل کو اپنے قبضہ میں لانے کی خاطر پنجاب کی تقسیم کی کڑوی گولی نگلنا بھی قبول کیا جائیگا لیکن صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا زرداری نے اپنے دور میں سرائیکی صوبہ کے قیام کیلئے کافی کوشش کی تھی لیکن پنجاب کی نمائندہ جماعت ن لیگ آڑے آ گئی تھی بعد میں جب ن لیگ کی حکومت تھی تو سرائیکی صوبہ تحریک کو روکنے کیلئے ن لیگ نے بہاولپور صوبہ کا نعرہ بلند کر کے رکاوٹ ڈالی تھی بہت سارے لوگوں کو معلوم نہیں کہ سرائیکی وسیب میں بہت بڑی ڈیمو گرافک تبدیلی لائی گئی ہے وہاں پر مشرقی پنجاب کے مہاجرین کو زمینیں الاٹ کر کے آباد کیا گیا ہے تمام شہروں میں مہاجرین کی اکثریت ہے اور مقامی لوگ غالباً اقلیت میں چلے گئے ہیں خود نامی گرامی ریٹائر ہستیوں نے بھی یہاں پر ہزاروں ایکڑ کی تعداد میں زمینیں حاصل کی ہیں جن میں پرویز مشرف بھی شامل ہیں یہ جو پیپلز پارٹی کو سرائیکی علاقہ میں شکست ہوئی اس کی وجہ مہاجرین تھے انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں ن لیگ کو اور 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا پنجاب کی تقسیم کے خلاف پنجابی دانشوروں نے بھی ایک محاذ کھڑا کیا ہے ان کا موقف ہے کہ سرائیکی علاقہ پر مخدومین اور بلوچوں کا قبضہ ہے جو مقامی نہیں باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں دو روز ہوئے ایک پوسٹ پر نظر گزری جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کو ہمایوں نے آباد کیا تھا جنہوں نے جنوبی پنجاب کی زمینوں پر قبضہ کیا جبکہ پیروں کو انگریزوں نے نوازا یہ دراصل گزشتہ کل کی بات تھی آج صورتحال تبدیل ہو گئی ہے مخدوم تو اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن بلوچ سردار اور فیوڈلز بہت پیچھے چلے گئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیرہ غازی سے ایم این اے زرتاج گل وزیر ہے جو لوگ تحریک انصاف میں شامل نہیں تھے انہیں شکست سے دوچار کیا گیا۔
مزاری‘ بزدار اور قیصرانی پنجاب اسمبلی کی ایک ایک نشست تک محدود ہیں لغاریوں اور کھوسہ کو بدترین انتخابی ہزیمت سے دوچار کیا گیا ہے پنجابی دانشوروں کا موقف ہے کہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی نام کی کوئی قوم موجود نہیں ہے وہاں پر سارے کے سارے پنجابی ہیں اور سرائیکی کا شوشہ مخدومین اور بلوچ فیوڈلز کی سازش ہے اس سلسلے میں بلوچ دانشور ڈاکٹر دین محمد بزدار اور واجہ نذیر لغاری صحیح روشنی ڈال سکتے ہیں البتہ تحریک انصاف نے جو شوشہ چھوڑا ہے اس کا مقصد عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے جبکہ ایسے شوشوں سے اوپر کے لوگ بھی خوش ہیں۔
لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو موجودہ چار صوبے ہیں یہ محض صوبے نہیں بلکہ قومی صوبے ہیں بہتر ہوگا کہ ان میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے چاروں صوبوں میں جو لوگ اقلیت میں ہیں وہ بھی ان صوبوں کا لازمی حصہ ہیں اور انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں از روئے انصاف یہ حق بنتا ہے کہ سرائیکی صوبہ قائم کیا جائے تاہم اس کی آڑ میں اگر دیگر قومی صوبوں کو چھیڑا گیا تو اس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلے گا خاص طور پر سندھ کے عوام اپنے صوبے کی تقسیم کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے اور وہاں پر توقع سے کہیں زیادہ رد عمل ہوگا۔
جہاں تک بلوچستان کے پشتونوں کا تعلق ہے تو فاٹا کے پشتونخواء میں انضمام کے بعد ان کے علیحدہ صوبے کا امکان ختم ہو گیا ہے اور ویسے بھی بلوچستان کے پشتون سابق صوبہ سرحد میں ضم ہونا نہیں چاہتے تھے اب یہ لوگ تاابد بلوچستان کا لازمی حصہ رہیں گے ان کا جینا مرنا نفع نقصان بلوچستان کے ساتھ رہے گا ویسے بھی جب زرداری نے نئے صوبوں کے قیام کیلئے تجاویز طلب کی تھیں تو پشتونخواء ملی عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی کمیٹی کو لکھ کر دیا کہ وہ کوئی علیحدہ صوبہ نہیں مانگتے لیکن سیاست کی خاطر پشتون عوام کو ایک اور تصویر دکھانے کی خاطر وہ پبلک میں اور بات کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔