بلوچ سالویشن فرنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ آغا محمود قومی آزادی کے علمبردار سیاسی استاد، مدبر اور دانشور تھے وہ اپنے ذات میں ایک ادارہ تھے ان کا کردار ان ہزاروں دانشوروں ادیبوں اور لکھاریوں سے ہزار درجہ بہتر تھا جو ریاستی وظیفہ، صدارتی تمغات اور ایوارڈ کے لیے لکھتے اور دانشوری جھاڑتے ہیں جبکہ جو دانشور نہیں دانش خور ہے جو سستی شہرت اور نمود نمائش کے لے پرفارمنس دکھاتے ہوئے ادبی رہزن کا کردار ادا کررہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جو آغا محمود نے بلوچ آزادی کی جدوجہد میں بحیثیت قومی کیڈر عملی راہنمائی کی۔ شہید آغا محمود خان کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کرنا دراصل ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آغا محمود کی شہادت ان کی نظریات کی جیت ہے۔ شہید نے اپنی فکر و دانش سے ہزاروں ذہن پیدا کیئے، ہزاروں ذہنوں کو سیاسی اور فکری طور پر تربیت دے کر قومی آزادی کی جدجہد کے لئے تیار کیا، انہیں بلوچ نوجوان اپنا استاد، رہبر اور اپنا آئیڈیل مانتے ہیں وہ ایک قومی دانشور، زانت کار اور بلوچ نیشنل کاز میں ایک تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتے تھے۔
ترجمان نے کہا کہ شہید نے مٹی کا قرض ادا کرکے اپنی آخری سانس تک آزادی کی جہد سے وابسطہ رہے، انہیں بلوچ آزادی کے آدرش سے عملی اور سچی وابستگی کی بنیاد پر ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ قلات کے شاہی قبرستان جس میں ان کے خاندان کے سینکڑوں لوگ دفن ہے لیکن آغا محمود ان سے منفرد اور الگ ہے۔ انہوں نے روایتی خانی ذہنیت یا رائل فیملی جیسے دقیانوسی خیالات سے نکل کر خود کو ایک عام بلوچ کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے نظریاتی سیاست کی۔