دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
قسط 1 – تربت سے گوادر کا سفر (پہلا حصہ)
مکران ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر تربت سے، ”انٹر نیشنل“ ائیر پورٹ، گوادر کے لیے جانے والی ”عظیم لوگوں کی“ پی آئی اے والی پرواز اچانک کینسل ہوگئی تھی۔ (پی آئی اے کے لیے مکران میں ”اچانک“ اور ”معمول“ کے لفظ اپنے اصل معنی کھو دیتے ہیں)۔ ہم ایک لحاظ سے خوش ہوئے کہ اس طرح ہمیں زمینی راستے سے جانے کا موقع ملے گا اور اس طرح ہم اپنا وطن قریب سے دیکھ پائیں گے۔ تربت میں میرے مری قبائل کی اچھی خاصی آبادی رہائش پذیر ہے۔ ان عظیم مہمان نوازوں کی فیاضی کے نتائج سے بچنے کے لیے چھپتے چھپاتے اور کہیں کہیں زبردست قسم کے بہانے تلاش کرتے ہوئے، کہیں طلاق و سوگند کا امرت دھارا استعمال کرتے ہوئے ہم نے ایک ڈبل ڈور پک اپ2500 روپے میں بک کرلی۔ اور دن کے ایک بجے تربت سے گوادر کی طرف روانہ ہوئے۔
تربت بازار میں کتابوں کی ایک مشہور دکان سے ہم نے کراچی کا شائع کردہ بلوچستان کا نقشہ ساٹھ روپے میں خریدا تاکہ علاقوں، جگہوں سے اچھی طرح واقف ہوسکیں۔ (بلوچستان کا نقشہ تک کراچی میں چھپتا ہے)۔ مگر اس نقشے میں بالیچہ کو بلیا با، ناصر آباد کو نصیر آباد، کلاتک کو کلانوک، نلینٹ کو نالیں لکھا ہوا تھا۔ اس طرح کے اور بھی کئی مزاحیہ الفاظ اور لکیریں تھیں۔ آگے چل کر ہمارے اس نقشے کے ساتھ بلوچستان نے وہی حشر کرنا تھا جو یہ دھرتی، سکندر اعظم کے ساتھ کرچکی تھی۔ ہمیں کوئی اور وارث شاہ تلاش کرنا تھا۔
بلوچستان کی بلوچ بیورو کریسی کی اکثریت مکران سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بیورو کریٹ محفلوں میں بیٹھ کر اپنی ترقی، تہذیبی بلندی اور ترقی پسندی کی بہت سی ہوائیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ مگر اُن کی اصل حقیقت ہم نے جاکر اُن کے گھر، اُن کے گاؤں اور اُ ن کے علاقہ میں دیکھی، جہاں نہ سڑک ہے نہ سنگِ میل، نہ بجلی نہ آبنوشی کی سکیم۔ ماوند اور مکران میں کوئی فرق نہیں …… پسماندگی میں مساوات۔
مگر یہ مساوات بھی نہیں ہے، اس لیے کہ سرکار کو ہٹا کر ساری بات قدرت پہ رکھیں تو مکران میں تو پہاڑوں کی کمی اور صحرا کی وسعت کے سبب وہ سبزہ بھی نہیں جو مری علاقہ میں ہے۔ نہ بارشیں ہوتی ہیں اور نہ بارشوں سے ہونے والی فصلات، اور نہ فصلات پہ پلنے بڑھنے والے مویشی۔ یہاں تو جہاں دیکھیں مسجدیں ہی مسجدیں ہیں…… پکی مسجدیں، کچی مسجدیں، جھونپڑی جھگی والی مسجدیں، عربی مسجدیں، افغانی جہاد کی مسجدیں، سرکاری فنڈ کی مسجدیں، تبلیغی مسجدیں، ذکری مسجدیں، نمازی مسجدیں……
ہم مکران جانے والے ہیومن رائٹس کمیشن کا دو رکنی وفد تھے۔ اُس کی سر کردگی بلوچستان برانچ کا سربراہ ڈاکٹر امیر الدین کررہا تھا۔ رمضان کا مہینہ ہے اور مکران میں روزہ ہے۔ سنو لوگو! مکران میں روزہ ہے۔ سیکرٹری، ڈی سی سمگلر تو ہر جگہ کے بڑے نمازی ہوتے ہیں کہ ہر گناہ گار، ظالم اور دولت مند مزاروں اور مندروں کی بہت دیکھ بھال کرتا ہے۔ چندے اور خیرات پہ سارا زور کہ شاید گناہ دھل جائیں۔ مگر مکران میں تو عام آدمی بھی تیزی کے ساتھ تبلغی جماعت کی ساخت کا چہرہ اپناتا جارہا ہے۔ سیاست دانوں کی سیاہ کاریوں اور اعتماد شکنیوں نے مکرانیوں کی ساری امیدیں، سارے سہارے چکنا چور کردیے اور یہ لوگ اپنے عالم گیر سہارے، دائمی سہارے، حتمی سہارے کی طرف لوٹ رہے ہیں…… اور بڑی شدو و مد سے لوٹ رہے ہیں۔
چنانچہ صحرا کے اس سفر میں مسافروں کو بھی چائے نہیں ملتی۔ حد تو دیکھو کہ غیر آباد دشت میں جھٹکے کھاتے کھاتے جب ہم کھڈان کے موڑ پہ پہنچے تو وہاں جو چھپر والا ہوٹل ہے، وہ بھی بند ہے۔ باہر بیٹھے ہوئے اس کے مالک نے چائے کی ہماری فرمائش پہ ایسی بے نور آنکھوں اور بے بس لہجے میں ”رمضان“ کہہ دیا، جیسے تیس دن کے بجائے چنگیز خان کے تیس ہزار گھڑ سواروں نے اُس پر حملہ کردیا ہو۔ ایسی سختی مارشل لا والے بریگیڈیئر اخیان گل کے کوئٹہ میں بھی نہ تھی۔ روزہ اور ریت نے ملک کر اس ہوٹل والے کا حلیہ ”سنوار“ دیا تھا۔
یہ پورا علاقہ دشت کہلاتا ہے۔ جو کیچ کی چار سب ڈویژنوں (تربت، بلیدہ، تمپ اور دشت) میں سے ایک ہے۔ خود کیچ بطور ضلع یکم جولائی 1977 ء کو اس وقت وجود میں آیا جب مکران کو ڈویژن بنا دیا گیا اور اسے تین اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 1970ء میں ون یونٹ ٹوٹنے کے وقت پورا مکران ایک ضلع تھا جو بلوچستان کے کل آٹھ ضلعوں میں سے ایک تھا۔ 1995ء میں اس ضلع کا نام تربت سے کیچ رکھ دیا گیا۔ دشت سب ڈویژن کی دو تحصیلیں ہیں؛ دشت کھڈان اور بل نگور۔
دشت کا راستہ، کچا ہے۔ سکندر سے سسی کے عہد تک اور پھر سسی سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے نصف تک یہاں کوئی کہکشاں وجود میں نہ آسکی۔ پک اپ گاڑیوں کا زبردستی کا بنایا ہوا کچا راستہ، مسافروں کو مشکل ترین پی ٹی ڈرل کے کاشن دیتا ہوا بے مہر راستہ۔ ویران و بے گیاہ راستہ۔ علاقے کا لینڈ سکیپ ایسا ہے جیسے بچے بلوچی کھیل ”کلیڑو“ کھیلتے ہیں۔ جیسے کسی نے مٹی کی ڈھیریاں بنا بنا کر انہیں اناج کے خرمنوں کی طرح حد نظر تک ایستادہ کر رکھا ہو۔ جیسے مدفون ڈائنو ساروں کی ریڑھ کی ہڈیاں قطار اندر قطار پڑی ہوں۔ صدیوں سے پڑے مٹی یعنی دلدل کے سوکھے ڈھیر، ہر موڑ کا نیا منظر نامہ، ہر ٹیکری کے پار نیا نظارہ۔
کولواہ کے بعد دشت پورے مکران کا دوسرا بڑا بے آب و گیاہ قطعہِ زمین ہے۔ چٹیل میدان جس کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔ درمیان میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں آتی ہیں۔ جہاں سے چھوٹے ندی نالے اس میدان کے چہرے پر بے ترتیب جھریاں ڈالتے آتے ہیں۔ کہور، کہیر کے درخت ہی سبزہ کے سفیر ہیں دشت میں۔ (ان دونوں درختوں سے کتنے سارے محاورے، کتنے استعارے، کتنی کہانیاں اور کتنے واقعات بنائے گئے ہیں بلوچی زبان میں!!)۔
تربت سے گوادر سفر کے لیے گاڑی بک کراتے ہوئے میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ راستے میں بلوچستان کے اس حصے کی لوک موسیقی سنتا جاؤں گا۔ مگر ہمارا ڈرائیور مسلسل جگجیت و پنکج کی اردو غزلیں سنتا جاتا ہے۔ میں نے کمالان کے بلوچی کیسٹ تربت سے خرید رکھے تھے۔ اور چاہا کہ اس کی بلوچیت جگا کر دیکھوں۔ میں نے ایک کیسٹ اسے دے دی۔ اس نے لگا تو دی، مگر اس قدر بے دلی سے جیسے اُسے قاعدہ بغدادی پڑھنے کو دیا ہو۔ جوں ہی کیسٹ ختم ہوئی اس نے اس پھرتی سے کیسٹ نکال کر دوبارہ جگجیت لگا دیا، جیسے مچھ جیل سے چودہ سال کاٹ کر رہا شدہ سیاسی قیدی کو گیٹ پہ کسی اور دفع کا وارنٹ دکھا کر پھر اندر ہوجانے کا ڈر ہو۔ بلوچی کا مستقبل کیا ہوگا!!
دشت میں زیادہ تر آبادی دشتیوں پر مشتمل ہے۔ دشتی مشرقی بلوچستان میں میرے اپنے مری قبیلے میں بھی ایک ذیلی طائفے کی صورت میں موجود ہیں جو لوہارانی فرقے میں شامل ہیں۔ میرے ماما خیل وہیں کے دشتیوں میں سے ہیں۔ ہم دوسرے مری، دشتیوں کے بارے میں کہتے ہیں؛
”دشتی بے گوئشتی“…………(دشتی ضدی)
دشت کا علاقہ ہمارے مکران کے حکمران بیورو کریٹوں کی پسماندگی، لا تعلقی، بے دردی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بجلی، سڑک، پانی کچھ بھی نہیں۔ پورے دشت میں پانی نہیں، کنچتی کے آس پاس پیاس ہے، نلینٹ میں پانی نہیں، کپّر بے پانی ہے …… گوادر سے لے کر ڈیرہ غازی خان تک پانی نہیں۔ معزز، مستور، محترم اور پاک بلوچ عورتیں پانی کے سر چشمے تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں کا سفر طے کرتی ہیں۔ پتہ نہیں بلوچوں کی توجہ اس مسئلے پر کیوں نہیں جاتی!۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔