دلجان – زہرہ جہاں

525

دلجان

تحریر: زہرہ جہاں

دی بلوچستان پوسٹ

19 فروری تاریخ کا وہ اندوہناک دن ہے، جس نے ہم سے تین وطن زادے شہزادے, حق نواز, دلجان و بارگ, چھینے ہیں۔ گو وہ امر ہوئے ہیں.

میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے قلم, زہن و فہم کو وطن مادر کی مہر, حرمت و آزادی کے خاطر قربان ہونے والے مہر زادوں کے لیۓ وقف کردوں. لیکن شہیدوں کے کردار پہ لکھنا, انکی اعلیٰ ظرفی کو لفظوں میں پِرونا اور قربانیوں کو قلم سے سرخ رنگ دینا ہمیشہ ہی میرے لیۓ مشکل اور کٹھن کام رہا ہے.

شہید تو ہوتے ہی عظیم ہیں. شہادت ہوتا ہی عظیم لوگوں کے لیۓ ہے. ان کی اڑان و پہنچ ہمارے سوچ و تخیل سے کہیں اونچی اور کہیں آگے ہوتی ہے. اس لیۓ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیۓ, ان کے کردار پہ اپنی خیالات کی درشانی کے لیۓ عظیم لفظ ہی چھوٹا لگنے لگتا ہے.

شہید حق نواز, بارگ اور دلجان تینوں ہی میرے وطن کے روشن چمکتے دمکتے ستارے ہیں. لیکن یہاں میرے تحریر کا مرکزی کردار ضیاء دلجان ہوگا. کیونکہ میرے معلومات شہید بارگ و شہید حق نواز کی نسبت دلجان کے بارے میں تھوڑی زیادہ ہیں.

دلجان کو میں دلوں کی جان کہتی ہوں اور کیوں نہ کہوں، انہوں نے تو تحریک کو اپنی ضیاء سے منور کرتے کرتے اپنے ساتھ تین اور نام کماۓ تھے شعبان, ٹک تیر اور دلجان جو اب تک کسی نے اپنے مقدر میں لکھے ہیں.

اور وہ دلجان کیوں نہ بنتا جسے بہادری و لاڈ وراثت میں ملی تھی، بابو نوروز خان سے. جس نے ماں کی گود میں “میں دھرتی کا ہوں” لولی پڑھا تھا. جس نے چھوٹے بھائی راشد حسین کے ساتھ وطن پرستی کا کھیل کھیلا تھا، بچپن میں. دوستی و سنگتی کے سنگم کو ہر حال میں برقرار رکھنے کا سبق جس نے شہید حق نواز سے پڑھا تھا. دشمن کے ساتھ زندہ جانے کے بجاۓ آخری گولی کا مشق جس نے شہید امیر جان کے ساتھ کیا تھا. ہنسی و مسکراہٹ کے قہقہے جس نے نثار صباء کے ساتھ لگاۓ تھے. سیاہ چاہ کے پیالے میں جس نے حیؤ نثار کے ساتھ دنیا کی فکر کو دھوئیں میں اڑایا تھا. جس نے شہید محترم کے ساتھ دشمن کی نیندیں اڑادیں تھیں. جس نے شہید چیئرمین کے ساتھ گوریلا جنگیں لڑی تھیں. جس نے مرید بلوچ کے ساتھ وطن کے لیۓ نغمے لکھے تھے. جس نے استاد میر احمد کے ساتھ وطن کے گیت گاۓ تھے. جسے کامریڈ عبدالنبی نے اپنے تجربے سے بہر آور کیا تھا. جس نے شہید استاد جنرل اسلم کے کمان میں جنگ کے اصول سیکھے تھے.

وہ بندہ دلجان کیوں نہ بنتا جسے بلوچ دھرتی نے اپنے خدمت کے لیۓ چنا تھا. جسے دھرتی نے اپنا فدائی بنایا تھا. جسے دھرتی نے اپنے مہر و محبت کا سفیر بنایا تھا. جسے دھرتی نے اپنا شہہ مرید چنا تھا. جسے دھرتی نے اپنا حقیقی وارث ٹہرایا تھا. جسے دھرتی نے اپنے نرمزار یعنی سرمچار کے شرف سے بشخا تھا. جسے دھرتی نے اپنے ساتھ مسکرانے کا موقع دیا تھا. جس کے ساتھ دھرتی تنہائی میں روتا تھا. جسے دھرتی نے اپنے نور کا ہمراہ بنایا تھا. جسے دھرتی نے اپنے گواڑخوں کا رکھوالا بنایا تھا. جسے دھرتی نے اپنے مٹی کا کماندار بنایا تھا.

وہ بندہ تو بنا ہی دلوں کی جان بننے کے لیۓ تھا. وطن کی مہر و محبت, یکجہتی و اخوت, قربانی و شہادت اور آجوئی ہی عبادت کا پیکر تھا. 2007 سے لیکر 2018 تک اس پہ اور اس کے خاندان پہ انگنت مظالم ڈھاۓ گئے، جو اب تک جاری ہے. لیکن ضیاء نے اپنے دل پہ رکھے وطن کی پتھر کو کبھی بھی نیچے گرنے نہ دیا بلکہ اپنے والی نسل کو مزاحمت کا راستہ دکھایا. انہیں بندوق و قلم کا جوڑ سکھایا. انہیں دشمن کو ٹک کرکے مارنا سکھایا اور ٹک تیر کا لقب پایا. اپنے درد و غم, خواہشات و احساسات کو الفاظ میں پرونا سکھایا اور ضیاء کے ساتھ منور ہوگیا. دوستی نبھانے کا ہنر سکھانے کے لیۓ شعبان بن کر آیا. قریب و دور سب کے ساتھ مہر کا ایسا رشتہ تخلیق کیا کہ دلوں کی جان یعنی دلجان بن کے استعارہ بن گیا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔