بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چئیرمین سہراب بلوچ نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر خواتین نے اپنے فطری حقوق جدوجہد سے پدرانہ نظام میں ایک مقام بنایا ہےاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کسی بھی شعبے میں مردوں سے کم تر نہیں ہے۔اگر خواتین کو ترقی کے مواقع میسر کئے جائیں تو وہ ہر شعبے میں سماج کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا خواتین کسی بھی سماج کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں انکی شراکت کے بغیر ترقی کا عمل شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
سہراب بلوچ نے مزید کہا بلوچ سماج میں خواتین کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے، بلوچ کی مزاہمت سے لیکر ادبی سرگرمیوں میں خواتین کا اہم مقام رہا اور ہے سولویں صدی کی بانڈی اوربیسویں صدی کی ناز بی بی سے لیکر آج تک خواتین جبر کی انتہا کے باجود مزاحمت کے علامت بن رہے ہیں بلوچ خواتین نے بلوچ سماج کی ترقی کے لئے معاشی، سماجی، سیاسی و ادبی میدان میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان میں برطانوی آمد اور سنڈیمن سرداروں کی اجارہ داری کے بعد خواتین کو گھر کی چار دیواری میں ایک حد تک محدود کردیا گیا اور ساتھ ہی خواتین کے متحرک کردار کو نہ صرف مسخ کیا گیا بلکہ خواتین کو سیاست سمیت ہر شعبے میں مسدود رکھنے کی بڑی کوشش جاتی رہی اورکی جارہی ہے۔
بلوچستان میں جاری حالیہ ظلم و جبر، وحشت اور خوف کا ماحول سات عشروں سے جاری ہے۔ جہاں ریاستی تشدد سے بلوچ نوجوان، بوڑھے، خواتین اور بچے محفوظ نہیں ہے، آئے روز جبر و تشدد کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہیں اور خواتین کو بھی اجتماعی سزا کا برابر شریک بنایا گیاہے ۔
سہراب بلوچ نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ تحریک میں خواتین کی شمولیت اور کردار کے بغیر کامیابی کا عمل شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بلوچ خواتین کو چاہئیے کہ وہ عورت مارچ کے طفیلانہ نعروں سے اپنی قوت جدوجہد کو مدغم ہونے سے بچائیں بلکہ بلوچ قومی تحریک سے جڑ کر بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کے لئے کردار ادا کریں۔