خواتین کا عالمی دن اور آزادی
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی ہر انسان کیلئے قدرت کا ایک عظیم و نایاب تحفہ ہے۔ یہ چھن جائے تو انسان کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ سماجی آزادی سے لیکر قومی آزادی کا مجموعی مقصد انسانی آزادی و اقدار کو یقینی بنانا ہے، بلا تفریق جنس، رنگ و نسل ، طبقہ یا علاقے، سے تعلق رکھنے والے انسان برابری کی بنیاد پر آزاد ہوں، سیاسی، سماجی حقوق میں کوئی بھید بھاو نہ ہو، خاتون ہو، چاہے مرد، بچہ ہو یا جوان ، زمیندار ہو یا کسان، غریب ہو یا امیر سب کو آزاد و قانون قدرت کے مطابق زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے، انسان حقیقی آزادی کی معنوں پر زندگی گذارنے کا موقع حاصل نہیں کر پا رہا۔ انسانی آزادی کی جہد آج بھی ترقی یافتہ ملکوں سے شروع ہوکر ترقی پذیر ممالک تک مختلف شکلوں و نظریات کے تحت جاری ہے۔ اس جہد کو مکمل ہونے میں صدیاں درکار ہونگی، تب تک یہ جہد مختلف شکلوں اور نظریات کے تحت اپنا وجود برقرار رکھے گی۔ خواتین کے حقوق کی جہد کوئی نئی کاوش نہیں بلکہ ہمیشہ سے قدم بہ قدم، آزادی، سماجی برابری و حقوق کیلئے قربانیوں کا تسلسل جاری ہے۔
مذہبی رجعت پسند ممالک ہوں یا لبرل ازم کے علمبردار مغربی ممالک، ان میں عورت اور اسکی غلامی کی داستان پیدائش سے شروع ہوکر موت تک محو سفر رہتی ہیں۔ لبرل اور قدامات پسند و مذہبی رجعت پسند خواتین کی ان محرومیوں کو اپنے اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرتی ہیں۔ اس لیئے کبھی عورت بہ مقابلہ مرد کا نعرہ دیا جاتا ہے تو کبھی عورت بہ مقابلہ مذہب کے نام پر عورتوں کو جنسی امتیاز کے سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
عورت، ماں، بہن، بیٹی، بیوِی اور دوست بھی ہے، عورت ڈاکٹر، وکیل، انجینیر، سماجی و سیاسی کارکن بھی ہے۔ کیا عورت غلامی کی بدترین شکل کو برداشت نہیں کررہی؟ کیا سماجی پابندیاں عورت پر لاگو نہیں؟ عزت و غیرت کے نام پر عورت کو ہتھکڑیاں پہنانا کہاں کا انصاف ہے؟ بے شعوری و جاہلیت نہیں کہ عورت کو انکی زندگی کے کسی حصے پر فیصلے کا حق نہیں، بنیاد پرست مذہب عورت کو غلام بنانے کے درپر ہے، جدید دنیاء عورت کو صرف ایک عیاشی کا سامان گردانتی ہے۔
فردی آزادیوں پر استحصال کی بات کریں تو عورت سب سے زیادہ متاثر لگتی ہے۔ کھانا پکانے سے لیکر اپنی مرضی تک کے کپڑے پہننے پر پابندی، زور سے بات کرنے، پسند و ناپسند ، کھلی ہوا میں سانس لینے پر قدغن ہے۔ گھر کے اندر سے لیکر گلی کوچوں، دفتروں، اسکول و کالج میں جنسی حراسگی سماجی نفسیات بن جائے گا، تو وہ سماج اور قوم ترقی کیسے کر پائے گی؟ آزادی کے کیا معنی رہ جائیں گے جب نصف آبادی سے اسکے جینے کا حق و آواز چھین لی جائے۔
بلوچ قوم ایک غلام وطن میں بدتر غلامی کی زندگی گزار رہی ہے جہاں سماجی تبدیلیوں کو غلامی نے مزید زنگ آلود کردی ہے۔ جنسی حراسگی، عورتوں پر تشدد، لڑکیوں کی تعلیم کے مواقع ، عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے بلوچ سماج آج دنیاء کے دیگر اقوام کی صفوں میں پیچھے نظر آتی ہے۔ اسکی وجہ تہذیبی حملے سے سماجی نفسیات بیمار ہو رہی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ کہ ان معاشرتی ناہمواریوں کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ کون سی قوتیں ہیں جو اس استحصال پر خاموش ہیں۔ یا وہ کونسی قوت ہے جو ان کو روک سکتی ہے۔ زبان زدعام ہے کہ مرد اس معاشرتی زوال کا ذمہ دار ہے۔ عورتوں کے سامنے مردوں کو شیطانی قوت بنا کر پیش کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ بات سوچنے کی ہے کہ پھر ریاست کا کام کیا ہے؟ ریاست کیوں ان رویوں کو نہیں روک رہی؟ جو عورت کو شدید غلامی کا احساس دیتی ہیں۔ ریاستی قوانین و مشینری ہوں یا تعلیمی نصاب ہو، سب مل کر عورتوں کا استحصال کرنے میں پیش پیش ہیں۔ مذہب کا استعمال کرکے چھوٹی سے چھوٹی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں پر مرتد و کفر کا فتویٰ ریاستی سرپرستی میں جاری ہوتی ہے۔ بے روزگاری، سیاسی و معاشی حقوق دینے کی ریاست پابند ہے نہ کہ جنسی تقسیم کے نام پر مرد اور زن کی مورچہ زنی اس مسئلے کا حل ہے۔
خواتین کو ریاست سے جنگ لڑنی پڑے گی، ریاست کی اس نام نہاد مذہبی استعارہ کے خلاف آواز اٹھانا پڑے گا۔ حق لینے کا مقام اور کس سے یہ حق لینا ہے اسکا تعین کرنا پڑے گا نہیں تو ریاست کبھی بھی عورت کو آزاد ہونے نہیں دے گی۔ عورتوں کے حقوق کی اس جنگ میں باشعور مرد بھی انکے شانہ بشانہ ہونگی۔
کسی بھی غلام قوم و غلام سماج کو قومی آزادی کی جہد ہی انکے بنیادی انسانی حقوق دلا سکتی ہے۔ قومی آزادی کی تحریکوں کا مقصد ہی سماج میں انصاف، برابری و آزادی سے جینے کا حق ہر انس کو دینا ہے بلا تفریق رنگ و نسل، جنس سب کو بات کرنے کا حق، اپنی بہتری و بھلائی کیلئے قدم اٹھانے میں مدد ایک آزاد قوم پرست ریاست کے قیام کے بغیر بلوچ خواتین اور مردوں کے لیے انسانی حقوق ایک نامکمل خواب ہی رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔