خواتین اور معاشرہ
تحریر: ویلری ہڈسن ، نیو یارک ٹائمز
دی بلوچستان پوسٹ
یو این ورلڈ کانفرنس فار ویمن نے 1995میں اپنے بیجنگ اجلاس میں یہ آئیڈیا پیش کیا کہ کسی بھی قوم کا مستقبل اس کی خواتین سے وابستہ ہوتا ہے، 2000میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1325میں کہا گیا کہ دنیا کا امن صنفی مساوات سے منسلک ہے، امسال جب کانفرنس کی پچیسویں اور قرار داد کی بیسویں سالگرہ منا رہے ہیں، ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت جو کچھ کہا گیا تھا، وہ آج بھی اسی طرح صادق آتا ہے، خواتین کے خلاف تشدد اور خواتین کی ماتحتی محض گھروں اور فیملی کے مسائل نہیں۔
ہم آج بھی یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین کے خلاف جاری تشدد سے ہم یہ پیشگی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قوم میں دہشت گردی اور سماجی کشیدگی کا رجحان پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تراسی ممالک نے خواتین، امن اور سیکیورٹی کے حوالے سے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا ہے، 1995سے خواتین کے حقوق کیلئے زبردست جدوجہد کی گئی ہے عالمی سطح پر ماؤں کی شرح اموات میں 45فیصد کمی واقع ہو چکی، پرائمری سکول ایجوکیشن میں طلبا و طالبات کی انرولمنٹ میں برابری آچکی اور قانون ساز اداروں میں بھی خواتین کی نمائندگی اب دُگنی سے زیادہ ہوچکی ہے، اب تک حاصل ہونے والی کامیابیاں اتنی ٹھوس نہیں، ماؤں کی شرح اموات میں کمی بنیادی طور پر چین میں ملنے والی کامیابیوں کا نتیجہ ہے، لڑکیاں پرائمری سکول سے گریجویشن کرنے تک لڑکوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں، قانون ساز اداروں میں ابھی تک خواتین صرف چوبیس اشاریہ پانچ فیصد نشستیں پر کرسکی ہیں، جبکہ بعض اداروں میں تو ابھی تک خواتین کو نمائندگی حاصل ہی نہیں، مگر اس کے باوجود قابلِ ذکر ترقی نظر آتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بڑے تکلیف دہ اشارے یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ پرانی برائیاں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں، بے شک ہم اسقاط حمل پر پابندی کی بات کریں، حتیٰ کہ جبری آبرورریزی کے کیسز میں بھی ہم خواہ امریکہ کی بات کریں یا سنٹرل ایشیاء میں کثیر زنی کو قانونی قرار دینے کا معاملہ ہو، دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ خواتین کے معاملے میں مسلسل ترقی ہورہی ہے، مزید یہ کہ بعض نقائص تو دائمی نوعیت کے ہیں، مثلاََ گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی اور جنسی مقاصدکیلئے خواتین کی سمگلنگ وغیرہ۔
شاید ہم اس بات کو انسانی دلچسپی کے اظہار یا عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں، مگر کچھ بھی حقیقت سے ماورا نہیں ہوسکتا، بہر حال اب، وقت آچکا ہے کہ ہم ایک بار پھر وہی بات کریں، جو آج سے ربع صدی قبل بیجنگ میں کہی گئی تھی۔
کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارو مدار خواتین کے سٹیٹس پر ہوتا ہے، ایک نئی سٹڈی کے زریعے میں نے اور میرے شریک مصنف
نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قومی سلامتی سے منسلک ہرپہلو اس بات سے جڑا ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں خواتین کو کس حد تک خودمختار بنایا گیا ہے۔(اہم بات یہ ہے کہ اس سٹڈی کی فنڈنگ محکمہ دفاع نے کی تھی، تاکہ بیرونی دنیا میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کا پیشگی اندازہ لگایا جاسکے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہورہی ہے کہ ہمارے سیکیورٹی کے حلقوں نے بھی ان باتوں کو سنجیدگی سے دیکھنا شروع کردیا ہے)
ہم نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے ممالک میں گھریلو امور میں پڑھی لکھی خواتین کو بھی ماتحت ذمہ داریاں ہی دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ خواہ وہ لیبر فورس میں ہوں یا کسی سرکاری دفتر میں کام کرتی ہوں، انہیں ماتحتی میں رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
افغان شوریٰ یا لویہ جرگہ کی ایک خاتون رکن کے ساتھ میری بہت اہم بات چیت ہوئی تھی،وہ یونیورسٹی تک تعلیم یافتہ تھی اور پیشہ ورانہ پس منظر رکھتی تھی، تاہم اس نے مجھے کہا کہ میں اپنے بچوں سے محروم ہوجاؤں گی اور میرے پاس سر چھپانے کیلئے بھی جگہ نہیں ہوگی، اسی طرح روانڈا کی لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کی شرح سب سے زیادہ ہے اور پارلیمنٹ میں بھی خواتین کی رکنیت کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، مگر پھر بھی وہاں کے عائلی قوانین اور جائیداد کے حقوق ایسی روایات پر مبنی ہیں، جو عموماََ مردوں کے حق میں جاتی ہیں،اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایسی باتوں کا جائرہ لینے کی ضرورت ہے، جو خواتین پر گھریلو یا ذاتی زندگی میں پابندیاں عائد کرتی ہیں، یہ محض نظریاتی نہیں، بلکہ عملی باتیں۔
سٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ جو مرد خواتین کو ایک کمتر مخلوق سمجھتے ہیں، وہی ان پر سیاسی تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں، وہی لوگ اقلیتوں اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اگر مردوں کو بھی گھریلو امور چلانے کی تربیت دی جائے، تو حکومت بھی مطلق العنانی اور کرپشن چھوڑ دے، گھریلو امور زبردست تربیتی مواقع فراہم کرتے ہیں، یہاں کے تربیت یافتہ مرد اپنی تربیت معاشرتی اختیارات میں بھی استعمال کریں گے۔
خواتین کو محکوم بنانے والے معاشرے اکثر عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں، پہلے سیاسی نظام کاقانون یہ ہے کہ آپ اپنی خواتین کے ساتھ جو بھی سلوک کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی قوم کے ساتھ سلوک کرتے ہیں، ہم نے اپنی سٹڈی کے دوران ایک سو بائیس متغیرات کا جائرہ لیا، جو نو پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں گورننس، تنازعات، معاشی کارکردگی، صحت اور ماحولیاتی تحفظ شامل ہیں اور دیکھا کہ پہلا سیاسی نظام نہایت اہمیت بھی رکھتا ہے اور نتائج کے اعتبار سے سب سے زیادہ وضاحتی اظہار کی قوت بھی رکھتا ہے۔
چنانچہ وزارت خارجہ میں حالیہ قانون سازی کے زریعے ”ان پاور منٹ گلوبل وومنز“ کا آفس قائم کیا گیا ہے، مگر ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے، اور اس کا آغاز گھر سے ہی ہونا ہے، ان باتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ خواتین نے جس محنت سے اولاد پیدا کرنے یا نہ کرنے کے حقوق حاصل کیے ہیں، انہیں ختم کرنے سے انکار کردیا جائے، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ گھریلو کاموں میں عورت کی ماتحتی کے مسئلے سے دوبارہ چھیڑ چھاڑ کرنے سے انکار کردیا جائے، یا ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی پریکٹس اور گھر یلو تشدد،ایک طرح سے دہشت گردی کی دوسری شکل ہوتی ہے اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔
آپ کسی عورت کو برا بھلا کہتے ہیں تو درحقیقت آپ اپنی قوم کو برا بھلا کہتے ہیں، آپ دراصل اس کا برا چاہتے ہیں، کیونکہ اس سے وہ عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔