خضدار سے لاپتہ کبیر بلوچ و ساتھیوں کے گمشدگی کو 11 سال مکمل، کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، اور عطاء اللہ بلوچ کو 27 مارچ 2009 کو نیشنل ہائی وے پر سیشن کورٹ کے سامنے سے نقاب پوش مسلح افراد نے اغوا کرکے لئے گئے تھے جو تاحال لاپتہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین نے ہائی کورٹ، حکومتی کمیشن سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں سے رجوع کئے اور انہیں نوجوانوں کی بازیابی کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے رہے لیکن کسی بھی جگہ سے کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا کا مسلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان سے گزشتہ دو دہائیوں میں 40 ہزار سے زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، لاپتہ افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اس کے علاوہ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت بھی اس بنیاد پر کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت لاپتہ افراد کا مسلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی، بی این پی نے جو 6 نکات حکومت کو دئیے ان میں سرفہرست لاپتہ افراد کا نقطہ ہے، اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے فلور پر 5 ہزار سے زائد لاپتہ افراد کا لسٹ بھی جمع کرایا تھا لیکن حکومت نے چند افراد کو رہا کرنے کے علاوہ اس سنگین مسلے کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائی ہے اور لاپتہ افراد کا مسلہ تاحال جوں کا توں ہے۔ کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے لواحقین نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کی پہلی وہ ہمارے پیاروں کے بازیابی کے لئے کردار ادا کریں ہمیں پیاروں کے گمشدگی کی درد و تکلیف اور طویل انتظار سے نجات دلائیں۔