بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ہے کہ سویڈش حکومت، صحافتی اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے سینئر بلوچ صحافی اور دانشور ساجد حسین کی بازیابی کے لئے کردار ادا کریں۔ وہ دو مارچ کی دوپہر سے لاپتہ ہیں اور ان کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ نوجوان صحافی ساجد حسین بلوچستان کے مایہ ناز صحافی ہیں۔ وہ پاکستان کے معروف انگریزی جرائد ”دی نیوز انٹرنیشنل“ اور ”ڈیلی ٹائمز“میں بطور اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر اور ڈپٹی سٹی ایڈیٹر کام کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں صحافی برادری اور سیاسی کارکنوں کا فوج کے ہاتھوں گمشدگی اور قتل کے بعد، انہوں نے سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ وہاں سے بلوچستان سے متعلق حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے ساجد حسین نے ”بلوچستان ٹائمز“ کے نام سے انگلش اور بلوچی زبان میں ویب سائٹ کا اجراء کیا۔ وہ چار سالوں سے سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں مقیم ہیں اور اپسالہ یونیورسٹی میں بلوچی زبان میں ماسٹرز ڈگری کیلئے تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ دو مارچ کو سویڈن کے شہر اپسالہ منتقل ہوئے۔ اسی دن یعنی دو مارچ کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہوا اور اس کی اطلاع مقامی پولیس اور متعلقہ اداروں کو دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساجد حسین بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی صدر شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کے بھانجا ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی لیڈرشپ اور جہدکاروں کے رشتہ داروں کو ہمیشہ ریاستی جبر وبربریت کا سامنا رہا ہے۔ بی این ایم اسے ”اجتماعی سزا“ قرار دیتا ہے۔ ساجد بلوچ ایک انقلابی پارٹی کے بانی کے خاندان سے تعلق رکھنے کے علاوہ صحافتی حلقوں میں ایک نمایاں نام ہیں۔ انہوں نے بلوچستان میں انسانی المیے کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیئے ہیں۔ وہ بلوچستان ٹائمز میں انگریزی اور بلوچی زبان میں خود تحریر کر رہے ہیں اور دوسرے مضامین شائع کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ایک ریڈیو چینل بھی چلا رہا ہے اور بلوچ قوم کی دبی آواز کو سامنے لارہا ہے۔ ان کی پراسرار گمشدگی نے ہمیں گہرے صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ہم اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ ساجد حسین کی گمشدگی میں آئی ایس آئی ملوث نہ ہو۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی و انسانی حقوق کی صورت حال گزشتہ دو دہائیوں سے انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔ ہزاروں لوگ قتل اور ہزاروں زندانوں میں بند ہیں۔ اس وحشت ناک بربریت سے بچنے کے لئے ہزاروں بلوچ سیاسی کارکن یورپی ممالک میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ان میں انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی بھی شامل ہیں۔ ساجد حسین کی گمشدگی نے بیرونی ممالک میں سیاسی پناہ گزین کارکنوں کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کیا ہے۔ وہ ممالک جو اپنے انسانی حقوق و اقدار کے تحفظ پر فخر کرتے ہیں وہاں ایک صحافی کی گمشدگی نے بے شمار سوالات کو جنم دیاہے۔
انہوں نے سویڈش حکومت، انسانی حقوق و صحافتی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساجد حسین کی بحفاظت بازیابی کے لئے کردار کریں۔