جمبرو و جنترو کی کوکھ سے جنم لینے والا چاکر مری
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ سنہ 2017 کی بات ہے، ایک بلوچ نوجوان کے گاؤں پر قابض پاکستانی فوج کی یلغار ہوتی ہے۔ اس فوجی بربریت میں مرد، خواتین اور بچے سب کو بلا امتیاز نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج، اس بلوچ نوجوان کی والدہ کو شہید کردیتی ہے، انکی اہلیہ کو بے دردی سے ماردیتی ہے، انکی سات ماہ کی بیٹی تک کو نہیں بخشا جاتا اور انہیں بھی شہید کیا جاتا ہے، انکے شیرخوار بھتیجی اور چاچا کو بھی شہید کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ انکے گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے، دوست و رشتے دار درجنوں کی تعداد میں شہید یا لاپتہ کردیئے جاتے ہیں۔ اس آپریشن کے بعد وہ نوجوان بچ جانے والے اپنے خاندان کے چار خواتین اور بوڑھے والد کے واحد کفیل بن جاتے ہیں۔ یہ پوری صورتحال کسی بھی انسان کو نفسیاتی طور پر توڑ دینے کیلئے کافی ہے، اس الم سے گذرنے کے بعد انسانی نفسیات یہ واحد دلیل آپ کے ذہن میں دہراتی ہے کہ اب آپ بلا توجیح خودی میں ڈوب سکتے ہو اور کسی کے مقروض نہیں۔ لیکن یہ نوجوان ٹوٹنے سے، خود کو ذات کے، خاندان کے یا قبیلے کے خول میں قید کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اور فیصلہ کرتا ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجود، وہ اب تک اپنے دھرتی کا مقروض ہے، وہ تب تک اس دھرتی کا مقروض رہے گا، جب تک اس کے زمین پر کوئی بھی غیر آکر آزادی کے ساتھ اسکے اہلخانہ یا کسی بھی بلوچ کو یوں آسانی کے ساتھ شہید کرکے جاسکے گا۔ وہ تب تک مقروض رہے گا، جب تک وہ اس دھرتی کو خود کے یا دشمن کے خون سے سیراب نہیں کرتا۔ وہ نوجوان ان تمام دلائل کو مسترد کردیتا ہے، جو اسے ذات کی طرف، کاہلی کی طرف، راہ فراریت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ مزاحمت کے مقدس بندوق کو کندھے پر لٹکا کر، تحریک آزادی کی راہ پر رواں ہوجاتا ہے۔
وہ نوجوان کوئی اور نہیں، وہ مرد شجاع بلوچوں کے بہادر قبیلے، مزاحمت و عزمت کے تاریخی نشان مری قبیلے کے ذیلی شاخ چھلگری سے تعلق رکھنے والے سنگت چاکر جان چھلگری مری عرف پردیسی تھے۔
چاکر صرف نام کے چاکر نہیں تھے، بلکہ چاکریت اسکے شعور کا حصہ تھا، یہ چاکریت کا شعور اپنے سرزمین پر چاکریت تھی۔ وہ کسی بھی طور اس چاکریت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ چاکر کے ذہن و شعور میں یہ بات کہ یہ سرزمین میرا ہے اور میں اسکا مالک ہوں، اس حد تک گھر کرچکا تھا کہ اسے دنیا کی کوئی لالچ یا کوئی خوف ہٹا نہیں سکتی تھی۔ انہوں نے جمبرو و جنترو کے کوکھ سے جنم لیا تھا، وہ ان پہاڑوں و گھاٹیوں کو اپنی ماں کی نظر سے دیکھتا تھا۔ انکے پیدا کرنے والی ماں کو فوج نے شاید شہید کردیا، لیکن وہ کبھی یتیم نہیں ہوا، چاکر، وہ ماں کی شفقت و ممتا اپنے سرزمین کے ان پہاڑوں کے دامن میں روز پاتا۔
چاکر برائے نام آزادی کے نام نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے ایک مختصر وقت میں اپنے سب ساتھیوں کو دِکھا دیا کہ ایک پختہ سوچ و نظریہ اور کمٹمنٹ رکھنے والا انسان کیسے سو عام انسانوں پر بھاری ہوتا ہے۔ چاکر بہت جلد اپنی شجاعت و بہادری اور بے باک دلیری کی وجہ سے سرمچاروں میں عزت کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چاکر کی منفرد بات یہ تھی کہ انکی شجاعت کبھی اندھی نہیں تھی بلکہ اس میں دانشمندی بھی ہوتی، انکی بہادری میں کبھی بیوقوفی کا عنصر نہیں ہوتا بلکہ ٹھنڈے دماغ سے سوچا ہوا جنگی حکمت ہوتا۔ چاکر جب بھی اپنے ساتھی سرمچاروں کے ہمراہ دشمن پر قہر بن کر ٹوٹتا تو وہ نا صرف دشمن کو تہس نہس کررہا ہوتا بلکہ اسکا ذہن پورے میدان جنگ پر ہوتا، ہر ایک ساتھی کے پوزیشن پر خبر رکھتا، وہ ایک تجربہ کار ماہر جنرل کی طرح پورے میدان جنگ کا خاکہ اپنے ذہن میں کھینچتے ہوئے لڑتا۔
چاکر دو سال تک اسی دلیری، حکمت اور جانبازی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن پر وار کرتا رہا، بہادری کی نئی مثالیں قائم کرتا رہا۔ مختصر مدت میں بڑی ذمہ داریوں کی بار اپنے کندھوں پر اٹھاتا رہا اور بالآخر انہوں نے 25 فروری 2020 کو سرزمین کا قرض اتاردیا۔ اور یہ قرض انہوں نے تنہا نہیں اتارا بلکہ اپنے ایک اور ساتھی جو انکی طرح ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جسکی تاریخ، قربانی، مزاحمت اور شہادتوں سے عبارت ہے یعنی شہید قادر مری ولد شہید نادر مری عرف ماما گونڈو کے ہمراہ ۔
جس جمبرو کی کوکھ سے چاکر نے جنم لیا تھا، 25 فروری کو چاکر مری اور قادر مری کا اسی جمبرو میں دشمن فوج سے سامنا ہوتا ہے۔ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا بہادر بلوچوں کی رِیت نہیں، چاہے اس ہتھیار کو اٹھائے رکھنے کیلئے اپنی جان دینی پڑے۔ یہ دونوں جانباز سرینڈر کرنے کے بجائے، دشمن کا آخری دم تک مقابلہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ درجنوں دشمنوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد آخر کار یہ دونوں بلوچ جانباز شہادت کی مرتبت قبول کرکے، دھرتی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر ابدی نیند سوتے ہیں۔
چاکر کی زندگی، اسکے فیصلے اور اسکی شہادت ہمیں ایک سبق سکھاتی ہے کہ یہ جنگ ذات کی جنگ نہیں، یہ جنگ کسی قبیلے یا شاخ کی جنگ نہیں۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے، یہ جنگ روشنی کو اندھیرے کے خونی پنجوں سے چھین کر آگے منتقل کرنے کی جنگ ہے، یہ جنگ سچائی کی زندگی کی جنگ ہے، یہ جنگ عزتِ نفس کیلئے آخری جنگ ہے اور یہ جنگ سب کچھ تیاگ دینے کی مانگ کررہا ہے۔ اس جنگ سے رکنے کیلئے نا بے سروسامانی کی دلیل کافی ہے، نا اپنے کھونے، بیمار ہونے، گھریلو ذمہ داریوں وغیرہ کی توجیحات قابلِ قبول ہیں۔ نا کوئی انگلی کٹا کر شہیدی کا دعویٰ کرسکتا ہے کیونکہ چاکر اور چاکر جیسے دوستوں نے سب کچھ کھونے کے باوجود بلا اُف کیئے جس طرح جنگ جاری رکھ کر ایک نئی سیما اور سرحد کھینچی ہوئی ہے، اس سیما سے پار والے سارے لوگ تاریخ میں مفرور یاد ہونگے اور تاریخ پر چاکریت تو صرف چاکروں کی ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔