تنہائی
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے تقریباً دنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں میں self-quarantine اور isolation میں ہیں تاکہ اس بیماری سے خود کو اور اپنے خاندان کو محفوظ رکھ سکیں، اس تنہائی میں بھی لوگ اذیت سے گذر رہے ہیں، گھر پر اپنے بچوں اور خاندان کیساتھ رہ کر بھی اپنے آپ کو قید تصور کرتے ہیں، ہر سہولت میسر ہے، کھانا پینا، ٹی وی، فلم، گیم وغیرہ اپنے مرضی سے دیکھ سکتے ہیں، کھیل سکتے ہِیں، کھا سکتے ہیں، فون پر دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ خوش نہیں وہ سمجھتے ہیں ہم قید ہیں، ڈیپریشن، اینگزائٹی اور بے چینی کا شکار ہورہے ہیں۔ آج اپنے مرضی سے دنیا سے دوستوں سے الگ تھلگ اور تنہا ہوکر یہ احساس ہورہا ہے کہ تنہا رہنا کتنا اذیت ناک اور مشکل ہے۔ لیکن اس دوران جب ہم اپنے تنہائی کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذہن میں لاپتہ ہونے والوں کا خیال آیا جو اپنے مرضی سے نہیں بلکہ جبری طور پر تنہائی کا شکار ہوئے ہیں وہ کسی مرض سے محفوظ ہونے کے لئے الگ تھلگ نہیں ہوئے ہیں ان کو بطور سزا الگ تھلگ رکھا گیا ہے، اذیت دیا جارہا ہے، اذیت صرف ذہنی نہیں بلکہ وہ جسمانی اذیت کا بھی شکار ہورہے ہیں، نہ کھانا اپنے مرضی سے کھا سکتے ہیں، نہ پانی پی سکتے ہیں، نہ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں نہ گیم کھیل سکتے ہیں، نہ کسی سے فون پر بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنا حال کسی کو بتا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا حال پوچھ سکتے ہیں، بس کسی وحشت ناک کال کوٹھڑی میں پڑے اذیت برداشت کررہے ہیں، وہ ایک دو ہفتے کے لئے تنہائی اور الگ تھلگ نہیں ہوئے بلکہ سالوں سے تنہائی کا شکار ہیں، وہ تنہا اذیت برداشت نہیں کررہے بلکہ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے، رشتہ دار، یار دوست سب اذیت سے گزر رہے ہیں یہ اذیت کا لمحہ اگر کوئی محسوس کرسکے تو بہت درد ناک، تکلیف دہ، وحشت ناک ہے، کچھ پتہ نہیں جو زندان میں ہے وہ زندہ ہیں یا نہیں اور اگر زندہ ہیں تو ان کو بھی کچھ پتہ نہیں کہ ماں، باپ زندہ ہیں یا اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، بہن کی شادی ہوئی ہے یا نہیں،بھائی کس حال میں ہے، دوستوں کا کیا حال ہے، وہ یاد کرتے ہونگے یا دنیا کے رنگینیوں میں دوستی بھول گئے ہونگے، بس کچھ پتہ نہیں لاپتہ ہونا موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے، جو مرتے ہیں ان کے لئے کچھ دن تک گھر میں کونٹ ڈال کر دعا فاتحہ کے لئے بیٹھا جاتا ہے، رو کر دل کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے اور کچھ دن یاد کرنے کے بعد انسان خود کو خود تسلی دیتا ہے کہ جو مر گیا ہے اب وہ واپس پلٹ کر نہیں آئے گا اور فطرت کا ایک قانون ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے اپنے کسی پیارے کو منوں مٹی تلے دفن کرکے بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا کیونکہ وہ جانتا ہے، سمجھتا ہے کہ موت برحق ہے، “کل نفس ذائقتہ الموت”ہر جان موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔
لیکن جو لاپتہ ہیں، جبری گمشدگی کا شکار ہیں، ان کے اہل و عیال ہر روز انتظار میں ہیں اور انتظار موت سے بھی خطرناک اور درد ناک ہوتی ہے، انتظار کرنے والے روز مرتے ہیں، ہر دستک پر نیند سے اٹھ بیٹھتے ہیں، والدین رو رو کر آنکھوں کے آنسو خشک کرچکے ہیں۔ بھائی کے گمشدگی کی درد سے ہم گذشتہ 11 سال سے گذر رہے ہیں اس درد کا مشاہدہ بہت قریب سے کرتا آرہا ہوں کیونکہ 27 مارچ 2009 کو بھائی کبیر بلوچ اور دو ساتھیوں مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے ہمراہ خضدار سے اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا۔ گذشتہ 11 سال سے ماں و بہنوں اور رشتہ داروں کو روز امید دینا پڑتا ہے کہ وہ ایک دن ضرور آئیں گے۔ 11 سال اس امید میں بیت گئے کہ وہ ایک دن ضرور آئیں گے لیکن ان کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مار دئیے گئے ہیں، پھر بھی امید ہے کہ آئیں گے کیونکہ وہ جس مقصد کے لئے اٹھائے گئے ہیں وہ مقصد عظیم ہے وہ زندہ ہوں یا مار دئیے گئے ہوں لیکن وہ دونوں صورتوں میں زندہ ہی رہیں گے کیونکہ قربانی ہمیشہ امر رہتی ہے اور کوئی کسی مقصد کے لئے مرے وہ عظیم ہوتے ہیں، سرزمیں بلوچستان کے شہید اور گمشدہ فرزند عظیم ہیں۔
احساس و جذبہ ہی انسانیت کو دوسری مخلوقات سے افضل بناتی ہے۔ جبری گمشدگیاں ظلم کے داستانوں میں بھی ایک سیاہ داستان ہے۔ اس جبر کے خلاف آواز بلند کرتے رہنا ہر انسان پر فرض ہے، جسکی ادائیگی کا جو موقع ملے کسی ماں، بہن، بھائی کی آواز بن کر اس حق و باطل کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں۔ جبری گمشدگیوں کی نشانہ بننے والے خاندانوں و لاپتہ افراد سے اظہار ہمدردی کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ انکی آواز بن کر انکی بازیابی میں کردار ادا کریں۔ تب تک آرام سے نہ بیٹھیں جب تک ظلم و جبر کی رات ختم نہ ہو اور انسانیت کی سربلندی کیلیے ایک روشن صبح کا آغاز نہ ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔