بلوچ خواتین اور انکے حقوق – گورگین بلوچ

270

بلوچ خواتین اور انکے حقوق

گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میاں رانا کافی عرصے بعد بلوچستان اپنے لاپتہ بلوچ دوست کو ڈھونڈنے بلوچستان آ پہنچا، گھر میں مرد نا ہونے کی وجہ سے بلوچی رسم و رواج کے مطابق بلوچ خواتین نے جھونپڑی نما گھر کے باہر (تاگرد) چٹائی بچھاکر تکیے پر میاں رانا صاحب کو بٹھایا، پانی چائے کے بعد خواتین قریبی گاؤں سے ایک قصاب لے آئے، جس نے مہمان کی خاطر تواضع کی خاطر ایک بکرا ذبح کیا، کھانا شیر روغن نوش کرنے کے بعد، میان نے اپنی خاموشی توڑی۔ “میرا بلوچی بھائی کہاں ہے؟ میں اس سے ملنے آیا ہوں، کافی وقت بیت چکا ہے ہم ایک دوسرے سے ملے نہیں ہیں۔”
پاس بیٹھی بوڑھی عورت نے باریک لہجے میں کہا “بھائی وہ آنے والا ہے” دور مسجد میں عشاء کی آزان ہورہی تھی۔ اسی دوران بھیڑ بکریوں کی آواز نے پہاڑی دامن کے سرد پرکشادہ موسم کو اور خوبصورت بنا رہا تھا، موسم بہار کی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی، بیھڑ بکریوں کے ریوڑ بہت دور تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ پاس ہی ہیں۔

ایک گھنٹے بعد سومار اپنے (میتگ) گھر پہنچا، چھوٹے بڑے سارے بھیڑ بکریوں کو ان کی آماجگاہ لے گیا۔ سومار طفیل سفر کے باوجود رانا کو دیکھ کر دوڑا، رانا کے ساتھ بغل گیر ہوا، ارے بچوں آپ لوگوں نے میاں صاحب کے لیے کیا خدمت کی ہے چائے مائے، کھانا وغیرہ سب کھلایا ہے کہ نہیں میاں نے جواب دیا بلوچی بھائی میں نے سب کچھ کھایا ہے مجھے یہ لگا نہیں یہ میرا گھر نہیں گھر سے زیادہ میری مہمان نوازی ہوئی ہے باتیں جاری تھیں، تازہ دودھ کی چائے دیوان میں پیش ہوئی۔

میاں صاحب کیسے آنا ہوا؟ چھٹیاں تھیں، سوچا کہ آپ کے گاؤں کا چکر لگاؤں آپ سے ملوں۔ بلوچی بھائی ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، آپ لوگوں کی عورتیں اتنی عزت دار، مہمان نواز، جان پہچان کے بغیر مہمان کی اتنی خاطر توازن، صرف پرانے کہانیوں میں ہونگے آج دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ بلوچ عورتیں کسی سے بھی کم نہیں، کیا انہیں بنیادی سہولتیں میسر ہیں؟

میاں صاحب ہمارے عورتوں کا نام تاریخ میں رقم ہے، ہماری عورتوں نے تاریخ کے سنہرے الفاظ میں نام پیدا کیا ہے، چاہے وہ ننگ ناموس ، قومی تشخص ہو یا کہ مہر و محبت ہو، ہمارے رسم و رواج میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے، دوران جنگ عورت کے سامنے آنے سے جنگ ختم کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری عورتوں کو بنیادی سہولت میسر نہیں، دوران زچگی فوت ہوجاتے ہیں، صحت کا کوئی نام و نشان نہیں، ہماری عورتیں آج بھی نمرودی دور کی زندگی گذار رہے ہیں ۔

کیا بلوچی بھائی عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے تنظیمیں کچھ کردار ادا نہیں کررہے؟

ارے بھائی یہ صرف کیپیٹل ٹاکوں، بڑے ہالوں میں محض بحث مباحثے پیش کئے جاتے ہیں، ان لوگوں کے سامنے وہ خود عورت کے استحصال کے زمہ دار ہیں، کونسی وومن تنظیموں نے آکر یہاں عورتوں کی بنیادی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیا ہے، سالانہ سینکڑوں عورتیں سیاہ کاری کے الزام میں قتل کئے جاتے ہیں ، ہزاروں لڑکیوں کی زبردستی شادی کی جاتی ہے، ،گرلز اسکول، کالجز، یونیورسٹیز نا ہونے کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں تعلیم کے زیور کے محتاج ہیں ، یہاں عورتیں اپنی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

بھائی سڑکوں پر ووایلا سے عورتوں کے بنیادی حقوق حاصل نہیں کئے جاتے، عورتوں کے حقوق کے لیے استحصالی طبقے سے لڑنا ہے، استحصالی طبقہ سے عورتوں کی حقوق حاصل کرنا ہے، استحصالی طبقے سے عورت کو خطرہ ہے عورت کو لاپتہ کیا جارہا ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔

بلوچی بھائی سیاہ کاری کا الزام لگا کر قتل آپ لوگ خود ہی کررہے ہو ، کالج یونیورسٹیز اسکول صحت آپ کے ہاتھ میں ہیں، آپ کیوں ان کو سپورٹ کررہے ہو، جو آپکے استحصال میں شامل ہیں۔

سومار نے تھوڑی خاموشی کے بعد اپنے شریک حیات بی بی سومری کو آواز دے کر کہا مشکیزے سے ٹنھڈا پانی ہمیں پلاؤ اور بستر بچھاؤ کہ رات کافی ہوچکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔