بلوچستان میں عورت کل اور آج
تحریر: اسرار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج کل بلوچستان میں مختلف نظریات کے حامل لوگ سیاسی و سماجی دیوانوں، محفلوں، یا پینل ڈسکشنز میں عورت کے سوال پر ہی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جو کہ زمینی حقائق و زمینی حقائق پر اثر انداز تاریخی پس منظر اور عوامل کو زیر بحث لانے کے بجائے، جو جس گروہ سے وابسطہ ہے اسی گروہ کے بیانیے کو پتھر پر لکیر مان کر اس پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔
بلوچ قوم کے بارے میں اس تصور کی تشہیر کی جارہی ہے کہ وہ اپنے فرسودہ قبائلی رسومات کی وجہ سے خواتین کو سیاسی،سماجی، ثقافتی، اور معاشی میدان میں جوہر دکھانے کے مواقع فراہم نہیں کرتے بلکہ انہیں روایتی بیڑیوں میں جکڑ کر قیدی بناتے ہیں لیکن اگرحقیقت کا اندازہ لگانا ہے تو نو آبادیاتی دور سے قبل کے بلوچ معاشرے کا تجزیہ کرنا ہوگا جب بلوچ تاریخ میں ضرورت کے مطابق خواتین کھیت و کھلیانوں، چراگاہوں اور گھریلوامور میں متحرک اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے تھے۔
بلوچ عورت آج کی طرح ایک ایسی گھٹن زدہ زندگی نہیں گذار رہی تھیں،عورت کے تعلیم حاصل کرنے پر باپ کو غیرت کے طعنے نہیں لگتے تھے، بلوچ سماج اس طرح تو نہ تھا۔ ہم یہ جانتے ہیں ہمارے سماج پر یہ نوآبادیات کے ہی اثرات ہیں ہمارا سماجی ساخت جان بوجھ کر مسخ کیا گیا ہے، کبھی مذہبی شدت پسندی کے ذریعے کبھی بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل جیسے کیسز رونما کرکے۔
تاریخی طور پر تو بلوچ عورت کا سماج میں اچھا خاصا کردار رہا ہے۔ کبھی مائی چھاگلی کی شکل میں ریاست لسبیلہ کو سنبھالنے پر تو کبھی بی بی گنجان کی طرح اپنے خاوند خان محراب کے ساتھ دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں ڈٹ کر، کبھی بانڑی کی شکل میں چاکر کے تھکے ہارے فوج کو ہمت دے کر، تو کبھی گُل بی بی کی شکل میں اپنے ریاست کاسفارتکار بن کر۔
بلوچ قوم کی عورت نے تو صدیوں سے قوم کے لئے قربانی دی ہے، مزاحمت کی ہے، جنگیں لڑی ہیں، فیصلہ سازی کا حصہ رہا ہے، فیصلہ سازی میں اس کا کردار رہا ہے، پھر یہ نام نہاد غیرت کے دعویدار بلوچ کب سے بنے اور کیسے بنے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا کہ آیا پھر یہ نام نہاد غیرت، فرسودہ روایات بلوچ پر تھونپے تو نہیں گئے ہیں؟
اپنی تاریخ و اپنے روایات سے نا آشنا ہونے پر میری جسم میری مرضی والے ٹوٹکے بھی آزمائےجاتے ہیں، جس پر سماج میں کچھ حصہ اس طرح کے پلےکارڈ اٹھائے پھرتے ہیں اور کچھ حصے کو ایسی ٹھیس لگتا ہے کہ پھر عورت کو چھپانا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔
آج سے 85 سال پہلے آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں بلوچ سماج میں عورت کی سیاسی و سماجی زندگی زیر بحث لایا جاسکتاہے لیکن آج ایسا کیا ہے کہ ماہ رنگ کے پورے بلوچستان کے طلباءو طالبات کے لئے احتجاج کرنے پر بلوچ قوم کی طرف سے بے جا تنقید ہوتی ہے۔
کبھی بلوچی روایات کی پامالی کے نام پر کبھی اسلام کے دائرے سے باہر نکلنے کے نام پر بلوچی روایات میں عورت کا تاریخ میں کیا کردار رہا ہے جن میں سے کچھ اوپر کے سطور میں بیان کئے گئے ہیں۔
جہاں تک مذہب کی بات ہے اماں عائشہ کا جنگ جمل میں کردار ہی عورت کو مختلف اوقات میں مزاحمت کا درس دیتا ہے، مذہب کے نام پر اسلام سے پہلے عرب سماج کا کلچر بلوچوں پر کیوں نافذ کیا جا رہا ہے۔ اور کیا اگر ایک مرد مذہب کے فرائض نہیں نبھارہا اس پر بھی اتنا ہی تنقید ہوتا ہے جتنا ایک عورت پر؟
بلوچستان اور بلوچ سماج میں عورت پر بے جا تنقید بلوچستان کے لوگوں پر نافذ کئے گئے ہیں یہ سب مختلف ادوار میں نوآبادیاتی قوتوں کے اثرات ہیں نہ کہ یہ بلوچوں کے روایات ہیں یا کبھی روایات رہے ہیں۔
بلوچستان میں اگر عورت مارچ کرنا ہے تو بلوچستان کے خطے میں جو عورت کے مسائل ہیں ان پر مارچ کرنا ہے، ہمیں سمجھ نا ہوگا کہ بلوچستان میں عورت کا مسئلہ “لو میں صحیح سے بیٹھ گئی” والا پلےکارڈ نہیں یقیناً بلوچستان میں بلوچ عورت کا مسئلہ ریاستی جبر ، عورتوں کی جبری گمشدگی، عورتوں کے جگر کے ٹکڑوں کی گمشدگی ہے۔ بلوچ قوم تو پولیٹیکلی میچیور ہے بلوچ قوم عورت مارچ کے خلاف نہیں لیکن اس بات کا مطالبہ ضرور کریگی کہ ہر جس خطے میں جو عورتوں کے بنیادی و موجودہ مسائل ہیں وہ ضرور اجاگر ہوں۔
ہمارا یا دیگر بلوچ قوم پرست حلقوں کا تنقید اس بات پر تھا کہ عورت مارچ کے دوران بلوچ خواتین پر نوآبادیات کے ظلم اور جبر کو یکساں نظر انداز کرکے، عورت کے تمام تر استحصال کا سبب بلوچ مرد کو قرار دیا جارہا ہے جو کہ بذات خود اس نوآبادیاتی ظلم و جبر کا شکار ہے لیکن کل سے حالات نےالگ رخ اختیار کرلی ہے، اب بلوچستان میں زیادہ تر خواتین یا خواتین مارچ کے حامی کھل کر بلوچ سماج پر اور بلوچ عورت پر نوآبادیاتی ظلم و استحصال پر بات کررہے ہیں جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عورت اگر اپنے یا کسی خطے کے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم رہے تو ایک مرد سے زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔