نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، پچھلے ایک دہائی سے بلوچ خواتین کی گرفتاریوں میں بہت تیزی آئی ہے، حالیہ دنوں مشکے میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں زرگل زوجہ رحیم بخش کو دوران گرفتاری غیر انسانی تشدد سے شہید کیا گیا اسی طرح اتوار کے دن آواران سے پاکستانی فوج نے رضیہ زوجہ سخی داد کو حراست کے بعد آرمی کیمپ منتقل کردیا جہاں ان پر غیرانسانی تشدد کیا گیا اور بعد میں انکو نیم مردہ حالت میں انکو انکے گھر کے سامنے پھینک دیا گیا،
ان سب واقعات کے بعد نہ تو سول سوسائٹی نے اپنا کردار ادا کیا اور نہ ہی خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظمیوں نے آواز بلند کی۔
ترجمان نے کہا انیس سو اکہتر میں جس طرح بنگالی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور جس طرح انکو غیر انسانی تشدد سے شہید کیا گیا وہ سب اب بلوچستان میں دہرایا جارہا ہے،اس لئے اب مہذب دنیا کو اپنی توجہ بلوچستان کے طرف کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان میں حالات روز بہ روز خراب ہورہے ہیں۔
ترجمان نے کہا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 50 ہزار کے قریب بلوچ نوجوان, بزرگ, خواتین اور بچے لاپتہ ہیں جوکہ ایک المیہ ہے۔
ترجمان نے کہا بلوچ خواتین کے حوالے سے اسلام آباد کو اپنا قبلہ درست کرنا چاہیئے کیونکہ جو موجودہ پالیسی بلوچ خواتین کے حوالے سے اپنائی گئی ہے وہ بلوچ قوم کو ہرگز قبول نہیں بلکہ بلوچ قوم شدید الفاظ میں اسکی مخالفت کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ دوبارہ ایسے غیر انسانی حرکات نہ کیئے جائیں، اس صورتحال میں بلوچ نواب و سرداروں کا کردار آستین کے سانپ جیسا ہے جوکہ اپنے خواتین کے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں بولتے، یہی نواب ؤ سردار کشمیر کے حوالے سے ریلیاں نکالنے میں پیش پیش ہوتے ہیں جو انسان اپنے لوگوں کے حقوق ادا نہ کرئے وہ دوسروں کو حقوق دلائے گا یہ احمقوں کے دنیا میں رہنے والی بات ہے۔
ترجمان نے آخر میں کہا بلوچ نوجوانوں پر اس وقت قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے خواتین کے حق میں ہر فورم میں آواز بلند کرئے چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور فورم، این ڈی پی بلوچستان کے حقیقی قوم پرست جماعتوں کو اس حساس معاملے کو روکنے کے لیئے مشترکہ حکمت عملی بنانے کی اپیل کرتی ہے۔