بازرگانِ دھرم
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
متحدہ ہندوستان یا برصغیر کو جب انگریزوں نے ۱۹۴۷ میں اپنے انخلاء سے قبل تقسیم کردیا، تو ان کے پاس تقسیم کا ایک بہترین فارمولا مذہب تھا۔ وہ اپنے مسلمان ایجنٹوں کے ذریعے جن میں محمدعلی جناح سرفہرست تھا، ہندو و مسلم تضادات کو ابھارنے اور فسادات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے حالانکہ اس سے قبل، اس شدت کے نا کبھی تضاد پیدا ہوئے تھے اور نا فساد برپا ہوئے تھے۔ اس شیطانی کھیل میں ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے۔ انگریز کی لانگ ٹرم پالیسی یہ تھی کہ خطے سےانخلا کے بعد بھی اس خطے کو اپنے زیر نگین رکھا جائے۔انہیں علم تھا کہ ہندوستان ایک عوامی و جمہوری ریاست رہیگی، اس لیئے اسے اپنا باجگزار بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ اسلیئے ہندوستان کو مذہب کے نام پر تقسیم کرکے اسکے جسم سے ایک ایسے غیر فطری ریاست کی تخلیق کی جائے جو یہاں انگریز کی غیر موجودگی میں کالے انگریز کا کردار ادا کرتے ہوئے اسکے مفادات کی تحفظ کرتا رہے۔لہٰذا اسلام کے نام پر پاکستان نامی ایک بندوبست برطانوی بیورکریٹوں نے نقشے پر لکیریں کھینچ کر قائم کردی۔جس کے بارے میں مولانا عبدالکلام آزاد نے شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا باقی پوری دنیا ناپاک ہوگئی ہے کہ پاکستان کے نام پر غیرفطری ریاست کی بنیاد ڈال دیا گیا ہے اور وہ پاک ہوگئی؟
بہت سے جید علما کے مخالفت کے باوجود انگریز اپنی چال میں کامیاب ہوگیا، دو قومی جھوٹے نظریئے کے تحت برصغیر کو محمد علی جناح جیسے ایجنٹوں کے ذریعے تقسیم کروادیا اور آج تک دیکھا جائے تو پاکستان انہی بیرونی قوتوں کا باجگزار ہے، جب دنیا کی باگ ڈور انگریز کے ہاتھ میں تھی تو یہ انگریز کے غلام رہے اور جب لاٹھی امریکہ نے سنبھالی تو یہ اسکے غلام اور چوکیدار ہیں۔ انگریز جسمانی حوالے سے چلا گیا لیکن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے آج بھی موجود ہے، آج بھی پاکستان سامراجی قوتوں کا ایک کالونی ہے اور اس کے حکمران سارے کے سارے کٹھ پتلی ہیں۔
عالمی سامراج کےاس ناجائز اولاد پاکستان کو جائز قرار دینے کی خاطر پاکستان کو مہروں کی اشد ضرورت تھی۔ یہ ریاست مذہب سے لیکر ثقافت، تاریخ حتیٰ کے حالاتِ حاضرہ کی جیتی جاگتی حقائق کو مسخ کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی تاریخ رکھتی ہے۔ اس خطے میں تبلیغ اسلام صحابہ کرام سے لیکر شاہ ولی اللہ تک ایک مقام رکھتی تھی۔ اس ناجائز ریاست نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اسلام کے تبلیغ جیسے پر امن تاریخی اور غیر متنازعہ روایت کو بھی نہیں بخشا، اور اپنے وجود کو جواز بخشنے کیلئے تبلیغ کا استعمال شروع کردیا۔ جس کا پہلا اور اہم قدم مولوی عبدالوہاب مرحوم کی شکل میں تھی۔ اور جو آج طارق جمیل کی شکل میں موجود ہے تاکہ یہ لوگ فتووں، اعلانوں، دلیلوں اور تبلیغ کے ذریعے اسلام کے نام پر لوگوں میں پاکستانیت کا پرچار کریں۔
یہ ریاست مکمل ناپاک عزائم کے حصول کیلئے قائم ہوا، اور حقیقت یہ ہے کہ اسکے قیام کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ صرف اس ریاست کو قائم رکھنے کیلئے بلوچ، سندھی اور پشتون مسلمان آزاد ریاستوں کو زبردستی اس میں شامل کرکے گذشتہ سات دہائیوں سے انکا قتل عام کرکے انہیں زبردستی جوڑے رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افغانستان کے مسلمانوں کا خون انہوں نے پانی کی طرح بہایا، یہ فلسطینی مسلمانوں کی صرف بات کرتے ہیں لیکن عملاً اردن میں ان پر بمباری کرنے والے یہی تھے، یہ کشمیر کی بات کرتے ہیں لیکن آج تک عملاً انہوں نے کچھ بھی کشمیر کیلئے نہیں کیا ہے سوائے قتل و غارت جاری رکھنے کے۔ نا خود جاکر لڑ کر وہ مسئلہ ایک ہی بار حل کرتے ہیں اور نا وہاں مکمل امن ہونے دیتے ہیں۔ کوئی ایک بھی مثال نہیں ملے گی کہ پاکستان کے اندر یا دنیا میں کہیں بھی اس نے اسلام کی کوئی خدمت کی ہو۔ لیکن دوسری طرف پہلے برطانیہ پھر امریکہ اور ہر سامراجی مفاد کی خدمت میں یہ کس حد تک گیا ہے یہ بیان کرنے کی بالکل ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو کردار سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اسلام کیلئے نہیں بلکہ سامراجی مفادات کیلئے قائم ہوئی ہے۔اور عملی طور پر اس سے زیادہ نقصان اسلام کو کفار نے بھی نہیں پہنچایا۔
لیکن انہوں نے لوگوں کو قابو میں رکھنے، دوسرے مقبوضہ قومیتوں کو قبضے میں قائم رکھنے، اپنےوجود کیلئے دلیل فراہم کرنے کیلئے ہمیشہ مذہب کا استعمال کیا ہے۔ یہ ہر گناہ کرکے مذہب کی گڑھی ہوئی دلیلوں میں اشنان کرکے خود کو پاک کردیتا ہے اور پھر خود کو پاکستان قراردیتا ہے اور مذہب کا یہ لبادہ اسے سرکاری مولوی فراہم کرتے ہیں۔ مذہب اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور مولویوں نے اسکو اپنی ایسی جاگیر بنادی ہے کہ کوئی سادہ لوح انسان پھر سوال کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔
دراصل یہ محض آج کا قصہ نہیں، ہر دور کے بادشاہوں، حاکموں، آمروں، قابضوں، فاتحوں نے اپنے تسلط و قبضہ گیریت اور لوٹ کھسوٹ کو طوالت دینے اور جائز قرار دلوانے کی خاطر درباری مولویوں، پادریوں، دانشوروں، شاعروں، صحافیوں اور مورخوں کا استعمال کیا ہے۔
ہمارے سماج کے سادہ قبائلی مزاج اور مذہب کی طرف عقیدت کو دیکھ کر اسکا خوب ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے، قابض دشمن کے پاس بلوچستان پر قبضے کا کوئی بھی جواز موجود نہیں تھا، ان میں اور بلوچ میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی سوائے مذہب کے تو انہوں نے مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ یہ کام محض اوپری سطح پر پورا نہیں ہوسکتا تھا، لوگوں کو رام کرنے کیلئے تبلیغی اجتماعات کا نا رکنے والا سلسلہ شروع کردیا گیا اور تبلیغی وفد بلوچستان کے کونے کونے میں بھیجے گئے جیسے تمام بلوچوں کو از سر نو مسلمان کرنا مقصود ہو۔
ایک مثال لیتے ہیں، تبلیغی اجتماع اس وقت سب سے زیادہ بلوچستان میں ہوتے ہیں، کیا سب سے زیادہ گناہ گار اور کافر قوم بلوچ قوم ہے؟ جب بلوچستان میں موجود مزاحمت کا آغاز نہیں ہوا تھا، تو اس وقت صرف سبی کا سالانہ اجتماع ہوتا تھا، اسکے علاوہ شاذ و نادر ہی دوسرے علاقوں میں چھوٹے موٹے اجتماعات ہوتے تھے۔ اجتماعی وفود بھی کبھی کبھار ہی نظر آتے تھے، جو نظر آتے تھے، وہ خود بھی زیادہ تر یہی مقامی بلوچ ہی ہوتے۔لیکن سنہ 2000 کے بعد جب مزاحمت شروع ہوئی تو وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اجتماعات کا ایسا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا، اور تبلیغی جماعتوں کی ہر طرف اتنی ریل پیل ہوگئی کہ گمان ہونے لگا کہ دنیا کے سارے گناہگار بلوچستان میں جمع ہوگئے ہیں۔ کیا بلوچ 2000 کے بعد گناہ گار ہوئے، اور اس سے پہلے دین دار تھے؟
بلوچستان کے علاقے نوشکی میں ایک اجتماع 1973 میں ہوا تھا اور اس کے بعد دوسرا اجتماع 2004 میں منعقد ہوا، ان تقریباً تیس سالوں کے دوران کچھ نہیں ہوا، کیا درمیانی دور میں بلوچ مکمل دین دار ہوچکے تھے اور 2004 میں واپس گناہ گار بن گئے کہ اجتماع شروع کرنے کی نوبت آئی؟ یا پھر اصل وجہ یہ ہے کہ 73 میں پاکستان کے خلاف مزاحمت جاری تھی تو بلوچوں کے ایمان کو تازہ کرنے کی نوبت آئی اور پھر جب 2004 میں دوبارہ حالیہ مزاحمت جوش میں تھا تو ایک بار پھر ایک اجتماع کرکے دوبارہ بلوچوں کو مسلمان کرنے کی نوبت آئی۔
اسی طرح بلوچستان کے شہر خضدار میں جب مزاحمت نے زور پکڑی تو اسٹیبلشمنٹ کا یہ بندہ خاص طارق جمیل از خود خضدار ایک اجتماع کرانے آئے۔ انکا وہاں کیا گیا تقریر آج تک ریکارڈ پر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ساحل و وسائل کچھ نہیں انکا پیچھا چھوڑ دو اصل کامیابی اللہ کے دین میں ہے۔ پتہ نہیں یہی بات وہ خضدار تبلیغی مرکز سے محض چند گز دور فوجی چھاونی میں بیٹھے پنجاب کے فوج کو کیوں نہیں بتلا تے تاکہ وہ واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ اسی تقریر میں وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن جب بلوچ خدا کے حضور پیش ہونگے تو خدا فرشتوں سے کہے گا انہوں نے دنیا میں بہت تکلیفیں جھیلیں ہیں، انہیں بغیر سوال جواب کے جنت میں داخل ہونے دو۔ پتہ نہیں یہ کس روایت و حدیث سے اٹھا کر لے آئے، موصوف جس طرح حوروں کے جسم کو ناپ کر بیان کرتے ہیں، آج تک کسی نے جرات کرکے اتنا ان سے نہیں پوچھا ہے کہ آپ کس روایت ، حدیث یا قرآنی آیت کا حوالہ دیکر یہ سب بیان کررہے ہیں۔ اسی تقریر میں طارق جمیل صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ بہت دین دار ہیں اور پنجاب کے لوگ گنہگار ہیں لیکن ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ پھر آپ اور یہ سارے تبلیغی جماعتیں جاکر پنجاب میں دین کیلئے کام کریں بلوچستان میں کیا کررہے ہیں۔
جب آزادی پسند رہنماوں غلام محمد، شیرمحمد اور لالامنیر کو پاکستانی فوج نے شہید کیا، اس کے فوراً بعد پورے بلوچستان میں تبلغی اجتماعات شروع ہوگئے، حتیٰ کہ ایسے بلوچ علاقوں میں بھی اجتماعات ہونے لگے جہاں سڑکیں تک نہیں تھے۔ایک انوکھی بات یہ ہے کہ یہ اجتماعات کرنے والے بڑے بڑے مولوی حضرات ہوں، یا گشت کرنے والے تبلیغی جماعتیں، ان میں بڑی تعداد پنجاب سے آئے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے۔ انکی رسائی ہر مسجد اور ہر گھر تک آسانی سے ہوتی ہے، انکو سوال جواب کرتے، لوگوں میں گھلتے ملتے اور ڈیتا جمع کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس ظالم ملک نےتبلیغ جیسی چیز کو بھی معاف نہیں کیا اور اسے مخبری کیلئے استعمال کررہا ہے۔ ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے کہ کسی علاقے میں کوئی تبلیغی جماعت اچانک آجاتی ہے، وہ مسجد میں رکتے ہیں، گھر گھر جاکر سب سے ملتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، جس دن وہ چلے جاتے ہیں، اگلے دن ہی اسی گاوں میں فوجی آپریشن شروع ہوجاتا ہے۔
کیا پنجاب کے پنجابیوں سے زیادہ بلوچ دین واسلام سے نا بلد ہیں؟کیا اسلام کی خلاف ورزی صرف بلوچ ہی کرتے ہیں؟یا یہ مقدس اسلام و مذہب کی آڑ میں بلوچ عوام اور دوسرے مظلوم قوموں میں پاکستان کے ظلم و زیادتی سے اٹھنے والی نفرت و ردعمل کو ختم کرنے اور اس کا رخ موڑنے کی خاطر سارا بوجھ خدا تعالیٰ پر ڈال کر خدائی عذاب قرار دیکر، یہ بلوچ کی قسمت و تقدیر سے جوڑتے ہیں تاکہ پاکستان و پاکستانی حکمران، پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے سارے کے سارے بری الذمہ ہوجائیں اور بلوچ بھی بے حس و بے وس ہوکر خاموش ہوں اور دوسری دنیا و جنت الفردوس کی خاطر اپنی آج کی جنت نما وطن کو بھول جائیں اور یہ زندگی کو بھی بھول جائیں، جو ان کو خدا نے خود دی ہے۔
بقول کارل مارکس مذہب ایک افیون ہے، جو دنیا سے آپکو بیگانہ کردیتا ہے، اگر مذہب افیون نہیں بھی ہے تو طارق جمیل جیسے مولوی مظلوم لوگوں کے لئے مذہب کو افیون بنانے کی پوری جتن کررہے ہیں تاکہ ہر مظلوم، حکمرانوں کے ہر ظلم و بربریت، نا انصافی، بدحالی، لوٹ کھسوٹ کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ کر بےحس ہو، خاموش ہو، خواب غفلت سوجائے اور جس حالت میں رہ رہے ہیں اسی حالت میں ہی رہیں حالانکہ خدا تعالیٰ خدا فرماتا ہے کہ میں ان قوموں کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود بدلنے کو کوشش نہیں کرتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے بھی پوری زندگی عبادت نہیں کی، انہوں نے پوری زندگی غار حرا میں نہیں گذاری، وہ اہل قریش کے سدھرنے اور حالت بدلنے کی صرف دعا نہیں کرتے رہے۔ وہ محض پوری زندگی طائف میں پتھر کھاتے نہیں رہے۔ جب ظلم حد سے بڑھنے لگا تو انہوں نے ظلم کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا اور ظلم کو جہاد سے مٹادیا۔ ایک حد تک ظلم سہنا صبر کہلاتا ہے لیکن حد جب گذر جائے تو پھر آپ ظلم برداشت کرکے ظالم کے ساتھی بن جاتے ہو، کیونکہ آپ کی خاموشی سے ظالم شے پاکر کسی اور پر ظلم شروع کردیتا ہے۔
آج پاکستان جیسا غیرفطری ملک بحران در بحران سے گذر رہا ہے، تو دوسری طرف کرونا جیسا وباء پھیل گیا، یہ وبا مزید پھیلے گا، جب ترقی یافتہ ممالک اس پر قابو نہیں کرسکے تو پاکستان جیسا ملک، جس کی بنیادیں کرپشن اور غریبوں کے لوٹ مار پر رکھی گئی ہو تو یہ کیسے اس پر قابو کرسکے گا۔ یعنی لوگ مریں گےاور لازماً لوگوں میں حکمرانوں کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر نفرت جنم لے گا۔ ایسے عالم میں جب لوگوں کا غصہ جائز ہے، جب حکمرانوں کی چوری، کرپشن، لوٹ مار، نا اہلی اور لوگوں کو اچھوت سمجھنے کی عادت طشت ازبام ہونی چاہیئے تھی۔ لیکن فوج اور حکمرانوں کے پاس لوگوں کو رام کرنے اور انکو افیون پلا کر دھت کرنے کا ایک آزمودہ عمل اب تک موجود ہے، انکا تاش کا اکا ابھی تک باقی ہے۔ اس نفرت کو جنم لینے سے پہلے قتل کرنے میں مولانا طارق جمیل صاحب پیش خدمت ہیں، عمران خان جیسے کرپٹ و نالائق اور فوج کے کٹھ پتلی کو رو رو کر آسمان پر چڑھا رہا ہے تاکہ لوگ سمجھ لیں حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں ہے، حکمران لائق و پاک و صاف ہیں۔
تاریخ گواہ ہے، علما حق نے باطل اور ایسے بدعنون حکمرانوں کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ وہ ہمیشہ مظلوم و محکوم انسانوں کی آواز بنے اور سر کٹوانے کو ترجیح دی۔ بلوچ کے نسل کشی پر خاموش، حکمرانوں کے محلات میں ملاقات کرنے والے اور انکی تائید کرنے والے علمائے حق نہیں ہوسکتے، یہ علمائے سو ہیں۔
گوکہ تبلغی جماعتوں میں نچلی سطح پر اکثریت دین و اسلام کی خدمت، اللہ و رسول کی نقش قدم پر چلنے کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہے ہیں لیکن حقیقت میں تبلیغی جماعتوں کو جو چلانے والے اور ایجنڈہ فراہم کرنے والے ہوتے ہیں، وہ جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے ہیں، آج اگر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا رضامندی شامل نہیں ہوتا تو سوال پیدا نہیں ہوتا طارق جمیل عمران خان جیسے کٹھ پتلی حکمران کو ایماندار باکردار دیانتدار جیسے القابات سے نوازتا۔
اگر آج ہمارے قوم کی سوچ کی سطح اس حد تک ہو کہ اس اکیسویں صدی میں مولانا طارق جمیل، خالد لانگو اور کریم نوشیروانی جیسے شعبدہ بازوں کو نہ پہچان سکیں، تو پھر ایسی ہی تاریخ میں قومیں غلامی کی ذلت کا حقدار ٹہرتی ہیں۔
آج انسانیت کی بنیاد پر عالمی وباء کے پھیلاو و ہلاکتوں پر ہر ذی شعور انسان، انتہائی تکلیف میں ضرور ہوگا اور ہونا بھی چاہیئے، مگر انسان و انسانیت کے نام پر انسانیت کے ساتھ ڈرامہ بازی اور تماشہ بھی ناقابل برداشت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔