ایک ہم وطن کا شعور اور اس تک کامریڈوں کا رسائی
تحریر۔ بیورغ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گو کہ میں ایک عام بلوچستانی ہوں، میں اپنے ماحول میں ہر طرح کے لوگ اور ان سے منسلک ان کا خیال و سوچ سمجھتا ہوں۔ یہ کس طرح سوچتے ہیں اور ہم یعنی میرے کامریڈ دوست کس طرح ان کی زندگی یا سوچ بدل سکتے ہیں، میرا مطلب ہر گز نیم خیال کے کامریڈ نہیں۔
وہ کامریڈ جو اپنے اندر ٹام پین، چے اور بھگت سنگھ کو پاتے ہیں۔ وہ کامریڈجو راول، کاسٹرو،ایسپن، سلیا ،المیدا و چندر شیکر کے جذبات اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ وہ کامریڈ جو اپنے ہم قوم، ہم زبان، ہم وطن، ہزاروں شہیدوں سے متاثر ان کے نظریہ کو سراہتے ہیں۔
میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ ہمیں عام عوام میں مل جولنا ہوگا، صحیح اور حق کا راستہ کیا ہے اور اپنے قوم کے مستقبل کے لیے کیا کر سکتے ہیں اس کے لیے مخلصی اور نیک نیتی کے ساتھ کچھ کرنا ہوگا ۔
جس طرح ہم شہر، شہر جا کر دیگر ورق شاپ کا انعقادکرتے ہیں، چاہے وہ کسی پارٹی کا ووٹ بینک بڑھانے کے لیئے ہو یا اپنے عوام کو لے کر کشمیر یکجہتی مارچ کا شکل اختیار کرے۔
ہمیں واضع فرق کے ساتھ عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ آج جس طرح کچھ نوجوان منشیات جیسی لعنت کے خلاف خضدار ٹو کراچی مارچ کرتے ہیں یا وہ عظیم مائیں، بہنیں، بلیدہ جیسے چھوٹے اور پسماندہ شہر میں منشیات کے خلاف سڑکوں کا رخ کرتے ہیں، آیا وہ حق پر ہیں یا سرکار کی طرف سے مکمل چھوٹ اور ان کی پناہ میں یہ کام کرنے والے حضرات جو اس وبا کو مزید ہمارے اندر پہلا رہے ہیں۔
ہمیں اپنا شعوری ضمیر کو ایکٹیو کرنا ہوگا، نہیں تو یہ اسٹیٹ اور ہمارے بورژوا تربیت یافتہ سردار، میر و سرمایہ دار طبقہ اس کو مزید پروان چڑھانے کے لیے اپنا رول یعنی بوٹ پالشی بھر پور طریقہ کار سے کرتا رہے گا اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمارے پاس آج شہید سمیع بلوچ ہے۔
ہمارے میڈ ان اسلام آباد یا فرنگی تربیت یافتہ سردار جن کا ضمیر صرف عوام کے لیے ووٹ کے ٹائم کچھ عارضی وقت کے لیے جاگ جاتا ہے ۔
ہم کیوں کر یہ جان نہیں سکتے کے ان باریش سردار جن کی سفید ریش صرف اور صرف اس لیے بنی ہیں کہ یہ عوام پر ظلم کریں اور عوام بجائے حقِ خودارادیت اس کے ریش کو احترام سےہاتھ لگا کر اپنے دھیمی آواز میں اس کے جبر سے پچنے کے لیے بلبلاتا رہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کے ہم استحصال کا شکار ہیں یہ استحصال ہمارے لیے ہر طرف سے ایک گھیرا بن چکا ہے۔
مجھے تعلیم،صحت روزگار،تحفظ دینے والا یہ نام نہاد اسٹیٹ سوائے میرے لوٹ مار، انتشار ،خوف ہراس پیدا کرنے کے علاوہ کچھ سوچتا ہی نہیں اور میں خود کو ان سرداروں کی طرح باور کرادوں کے حالت بدل جائینیگیں اور میں استحصال سے خوشحالی کی طرف جاونگا تو یہ میری بیوقوفی ہے۔
اگر بات میری سرزمین پر صرف لوٹ مار تک محدود ہوتا تو شاید مجھ جیسا کم عقل اس چیز کو زیادہ دیر برداشت کرتا پر یہاں تو میری قومی تشخص کو خطرہ ہے، ہمیں یہ بات واضح انداز میں سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اس کے خلاف مل کر اٹھنا ہوگا نا کہ سیاسی پارٹیوں کی زد میں آکر کچھ دن ان کی مفاد کے لیے ہلا گُلا کرکے پھر اس بات کو ہمیشہ کے لیے بھولنا ہوگا۔
میرے قوم پرست دوست سماجی کارکن سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ سرمایہ دار تربیت یافتہ سردار یا نام کے قوم پرست پارٹیاں سوائے ہماری بربادی کے کچھ اور نہیں سوچیں گے۔
بھلے جتنا ہم ان کے پیچھے بھاگتے رہیں، ان کو اگر کچھ کرنا ہوتا تو میں حلفیہ کہتا ہوں کہ سب سے پہلے اس انسانی روپ میں پیدا ہونے والے شیطان شفیق مینگل کے خلاف کچھ کرتے۔
یا اس کے چمچے جو پورے بلوچستان میں ان وردی والوں کے ساتھ ہزاروں بلوچوں کے قتل،اغوا، ذہنی ٹارچر، عام عوام کو دھمکی دے کر ان کی زمینوں پر قبضہ اور بلوچستان میں تعلیم دشمنی پالیسی میں یہ سب برابر کے شریک ہیں، کم از کم اس کرونا جیسے وبا کو تو ہم سے دور کرتے لیکن یہ کرونا کی طرح آہستہ آہستہ پورے بلوچستان میں پھیل رہا ہے۔ لیکن ہمارا یہ عوام ایک دوسرے کی تکلیف کم سمجھتی ہے اور اس کی وجہ ہماری کمزوری ہے۔
میں اگر سماجی کارکن ہوں تو میں ہرگز یہ نہیں بھولوں کہ میں اگر تربت سے تعلق رکھتا ہوں تو میں صرف تربت کے عوام کے لیئے آواز اٹھاوں ۔ نہیں میرے ہم وطن دوستو! ایسا سوچنا اخلاقی، مذہبی و بلوچی حوالے سے ہمیں قطعاً زیب نہیں دیتا۔
آج جھل مگسی سے تعلق رکھنے والے افراد یا ڈیرہ مراد والے یہ پوچھ لیں کے شفیق مینگل کیسا بندہ ہے تو یہ سوال نہیں میرے چہرے پر ایک تھپڑ ہوگا اور یہ حقیقت ہے کے شفیق مینگل کے کالے کرتوت کا ماسوائے بلوچستان کے کچھ علاقوں کے کسی کو پتہ بھی نہیں ۔
تیس سے چالیس ہزار سیاسی و غیر سیاسی بلوچ افراد لاپتہ اور اس کے ساتھ ساتھ پھر بلوچستان کے مختلف علاقوں جن میں خضدار،ڈیرہ بگٹی ،تربت، اور پشین سے بلوچوں کے اجتمائ قبریں ملتی رہتی ہیں اور جھوٹ کا سہارہ لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کے نام سے ان نعشوں کو ہمیشہ کے لیے غائب کیا جاتا ہے۔
اور ان کے لواحقین جو لگ بگ 3926 دن سے کوئٹہ میں موجود مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھیں ہیں ان کو اتنا بھی اطلاع نہیں دیا جاتا کے آپ کا جانشین اب اس دنیا میں نہیں۔ لیکن مجال ہے کے اس ظلم کو روکا جائے اور ہم ہیں کہ پاوں پے پاوں رکھے ہوئے بیٹھے ہیں۔
جب یہ تحریکیں زور پکڑتی ہیں تو ہم کچھ دنوں کے لیے رسماً ان کے ساتھ اظہارے یکجہتی کے لیے بیٹھتی ہیں، اور اس کے بعد اٹھ کر فوراً ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے عظیم لیڈر سنگت ذاکر مجید اور سنگت زاہد بلوچ ان ہی ٹارچر سیلوں میں بند ہیں جو کچھ دن پہلے ہمارے ساتھ ہمارے منزل کے روشن چراغ ہوا کرتے تھے۔
خیر بہرحال یہ ہم سب کی زمہ داری ہوگی کہ ہم اپنے عوام کو ان مشکلات سے دوچار ہونے سے پچا لیں اور اس کے لیے ان کے ساتھ ہمیں جڑنا پڑے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔