وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کے خلاف تاحال ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی ہے، ہم نے پولیس حکام سے اس حوالے سے ملاقات کی لیکن انہوں نے بھی معذرت کی جبکہ ہم اس حوالے سے کورٹ بھی گئے لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں کیا جہاں احتجاج کو 3925 دن مکمل ہوگئے۔ وکلا کے وفد نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر نے کہا کہ زاہد بلوچ کوئی دہشت گرد یا مجرم نہیں ہے جنہیں لاپتہ کیا گیا بلکہ وہ ایک طلبا تنظیم کے رہنما ہے اور اسی کی پاداش میں انہیں چھ سالوں سے جبری طور پر پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا۔ زاہد بلوچ کو ان کے تنظیم کے دیگر کارکنان کے سامنے پاکستانی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تمام انسانی حقوق کے ادارے زاہد بلوچ کے بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مکمل جنگی حالات ہیں جہاں لاشیں گررہی ہے، لوگ غائب کیئے جارہے ہیں، بلوچ خواتین کی ریاستی عقوبت خانوں میں بے حرمتی ہورہی ہے، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام آبادیوں کو مارٹر گولوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستانی حکمران اور ادارے بلوچوں کے قتل عام میں مصروف ہے جہاں بلوچ ننگ و ناموس کی پامالیاں ہورہی ہے۔ ان حالات میں ہر تماشائی کو بزدل یا غدار کہنا غلط نہ ہوگا۔ آج ایسے غدار بھی موجود ہے جو چند پیسوں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کو لاپتہ کرواکر ان کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ لاہور کے پانچ نمبر کے گلیوں میں رہنے والوں کو کیا پتہ کہ فلاں شخص کا گھر کہاں ہے یہ سب بے ضمیر لوگوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات رکھی جائے کہ کب تک مذکورہ افراد پانے بھائیوں کو دشمن کے ہاتھوں لاپتہ کراتے رہیں گے ایک نہ ایک دن وہ پکڑے جائیں گے۔