افغان طالبان کے ترجمان نے ٹویٹر پر ایک بیان میں اس بات چیت کی تصدیق کردی ۔
خیال رہے کہ امریکہ کے کسی صدر کا طالبان کے کسی اعلیٰ عہدے دار کے ساتھ یہ پہلا براہ راست رابطہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے بھی اس فون کال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے ملّا برادر سے’’بہت اچھی بات چیت‘‘کی ہے۔دونوں میں دوحہ میں تین روز قبل امریکا اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتا طے پانے کے بعد یہ پہلا رابطہ ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امارت اسلامی کے سیاسی نائب محترم ملّا برادر اخوند سے فون پر گفتگو کی ہے۔اس کی تفصیل بعد میں جاری کی جارہی ہے۔
بعد میں ترجمان نے ایک ای میل بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ملّا برادر کو بتایا کہ ’’وزیر خارجہ مائیک پومپیو بہت جلد افغان صدر اشرف غنی سے گفتگو کریں گے تاکہ افغانوں کے درمیان مذاکرات کے آغاز میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29 فروری کو افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا اور گذشتہ اٹھارہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے تاریخی سمجھوتا طے پایا تھا۔اس میں فریقین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اعتماد کی فضا بحال کرنے کے اقدامات کے تحت جنگجو اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے تیز رفتار اقدامات کریں گے لیکن وہ تمام متعلقہ فریقوں کے رابطے اور منظوری کے بعد ایسا کریں گے۔
سمجھوتے کے مطابق طالبان اور افغان حکومت 10 مارچ تک قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔افغان حکومت قریباً پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرے گی۔اس کے بدلے میں طالبان افغان حکومت کے قریباً ایک ہزار اہل کاروں کو رہا کردیں گے۔
لیکن اس سمجھوتے کے ایک روز بعد ہی افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔
انھوں نے گذشتہ اتوار کو کابل میں ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ طالبان کا افغان جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مطالبہ براہ راست مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ان کے اس بیان کے ردعمل میں طالبان نے افغان فورسز کے خلاف دوبارہ جنگی کارروائیاں کرنے کا اعلان کردیا ہے۔منگل کے روز مشرقی صوبہ لوگر میں ایک حملے میں افغان پولیس کے پانچ اہلکار مارے گئے ہیں لیکن طالبان یا کسی اور گروپ نے فوری طور پر اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔