الوداع! قاسم جان – شئے رحمت بلوچ

862

الوداع! قاسم جان

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکثر تین قسم کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ایک ظالم اور ایک ظلم کے خلاف لڑنے والا مجاہد ، اور تیسرا وہ جو سب کچھ جاننے کے بعد بھی خاموش رہتا ہے۔ وہ ہوتا ہے مجرم کیوںکہ دنیا میں سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے، انسانیت بھی آپ کو اپنے بقا کی جنگ لڑنے کو کہتا ہے، ظلم کے خلاف بغاوت ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ لیکن تاریخ ایک ہی سبق دہراتا ہے کہ جیت ظلم اور ظالموں کی طاقت اور غرور کا نہیں بلکہ جیت ، سچ ، حقیقت اور راہ راست پر چلنے والوں کی ہی ہوتی ہے اور ظالم کا قصہ دیر تک نہیں رہتا، کیونکہ ہر فرعون کا سامنا ایک موسیٰ سے ضرور ہوتا ہے۔

آج میں ایک ایسے شخصیت کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں، جنہوں نے ظالم اور قابضوں کو یہی سکھایا کہ غلامی کی زنجیر دیر تک نہیں رہتی ، اس کو توڑنے کےلیے ہمہ وقت جدوجہد ہوتی رہیگی، ایک ایسی شخصیت جنہوں نے دشمنوں کو یقین دلایا کہ ہم نے آپ کے طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایاہے ، ہم لڑتے رہیں گے ، لیکن اپنے قوم پر ہونے والے اس ظلم کو ہرگز برداشت نہیں کرینگے۔ ایک ایسا شخصیت جنہوں نے زندگی میں وطن سے آگے کسی بھی شئے کو اولیت نہیں دی بلکہ اس کا پہلا اور آخری حوالہ وطن ہی تھا، ایک ایسی شخصیت جس نے اپنے آج کو قوم کے روشن اور پرامن مستقبل کےلیئے قربان کردیا، اپنے سینے پر گولیاں سجا کر ، تاریخ کے روشن پنوں میں اپنے نام کا اضافہ بھی کردیا۔

شہید قاسم جان بسیمہ کے علاقے ، کلی پوگی میں پیدا ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کی لیکن مزید تعلیم کےلیے وہ خاران چلے گئے کیونکہ ، بیسیمہ میں ایسے ادارے نہیں تھے جہاں وہ اپنا تعلیم مکمل کرسکتے، خاران سے شہید قاسم جان نے BA کیا ۔

بلوچ قومی بقا کی جنگ کو آج 70 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکاہے ، بلوچ آج بھی کم وسائل کے باوجود زورآوروں سے نبردآزما ہے، اس جنگ میں ہزاروں بلوچوں نے اپنے سر کا نظرانہ پیش کیا ہے، اور ہزاروں ابھی تک ہر طرح کی قربانی کےلیے تیار ہیں۔ ظالم ریاست ظالم فوج کو ہر وقت یہ احساس دلاتا ہے کہ بلوچ قوم نے بحیثیت قوم مادر وطن کی حفاظت کی ہے ، اور قابضوں کو یہی سبق دیا ہے کہ بلوچستان ایک قوم کی میراث ہے اور وہ ہے بلوچ، بلوچ قوم ہرگز اپنے زمین پر کسی غیر کو آباد ہونے نہیں دیگا۔

قاسم جان ایک مخلص ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ براہوئی زبان کے شاعر بھی تھے، اگر وہ آج زندہ ہوتے، ہمیں یقین ہے کہ وہ آج تک بہت سے شعر لکھتے، یاد رہے کہ شاعری انقلاب کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے، 176 سال پہلے انگلش زبان کی شاعرہ Percy Bysshe Shelley کہتی ہیں ‘’شاعر دنیا کے ناقابل قبول قانون ساز ہیں۔ اس کے بعد کے سالوں میں ، بہت سارے شعرا نے آج تک اس کردار کو دل سے لیا ہے’’اور تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ادیبوں نے اپنے تحریروں میں سچ لکھا ہے اور شاعروں نے ہر وقت ظلم کے خلاف لکھا ہے، جس شاعر نے ادبی حوالے سے انقلاب میں حصہ لیا ہے، وہ تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں، شاعری انقلاب کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے اور حقیقت میں شاعروں کا جدوجہد ناقابل فراموش ہے۔

بلوچستان میں اگر جنگی محاذوں پر نظر ڈالی جائے تو، جنگی میدان بھی کچھ لوگوں کےلیے روتے ہوئے ںظر آتے ہیں۔ بھلے ، آج تک وہاں جنگ ہوتا رہا اور ہوتا رہےگا لیکن ، ہر کردار اپنی مثال آپ ہوتا ہے، اسی طرح ایسے کرداروں میں ایک قاسم جلے بھی ہیں، جس کی بے بہا قربانیوں کو بسیمہ سمیت پورے بلوچستان کا ہر محاذ یاد کرتا ہے جو جنگی تیکنیک سمیت ایک حاضر دماغ فیصلہ ساز کمانڈر بھی تھے، یاد رہے کہ بسیمہ میں ایف سی کیمپ کو تین چار بار خالی کیا گیا تھا ، اور بسیمہ میں ایک ایسا بھی دور تھا ڈیتھ اسکواڈ ہر گھر میں موجود تھا، شہید قاسم جان کی بے بہا قربانیوں اور ہمہ وقت جدوجہد سے بسیمہ کے حالات کافی حد تک ٹھیک ہوگئے لیکن ،بد قسمتی سے وہ ہم کو جلد چھوڑ کر چلے گئے۔

شہید قاسم جان ایک انتہائی مخلص اور رازدار ساتھی تھے، بہت دیر تک علاقہ والوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے تحریک میں شامل ہیں ، لیکن کچھ وقت کے بعد ڈیتھ اسکواڈ والوں نے شہید قاسم پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کی خبر شہید قاسم کو پیشگی موصول ہوئی تو مجبوراً ان کو سب کے سامنے مسلح ہونا پڑا، شہید قاسم جان نے کئی محاذوں پر اپنے فرائض سرانجام دیئے ، اپنی آخری سانس تک وہ گلزمین سے وفاداری کا ثبوت دیتے رہے ، آخر کار 21 جنوری 2013 کو ایک چھاپے میں وہ اور ، اُن کا بہن ریحانہ دشمن کے گولیوں سے شہید ہوگئے ، شہید قاسم جان آج جسمانی طور پر ہمارے ساتھ تو نہیں لیکن ان کا فلسفہ آزادی نظریہ، ہزاروں سال تک قوم کی رہنمائی کرتا رہیگا اور آزادی کی روشن صبح کو قوم کیلئے یقینی بنائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔