افغانستان: امکانات و خدشات – انور ساجدی

433

افغانستان: امکانات و خدشات

تحریر: انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

اشرف غنی اور عبداللہ کا علیحدہ علیحدہ حلف اٹھانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ افغانستان کے دو بڑے گروپ تقسیم ہوگئے ہیں لیکن طالبان کی موجودگی میں ان گروپوں کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے تو گذشتہ انتخابات کے نتائج کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا لیکن امریکہ نے بیچ میں پڑ کر عبداللہ کو بھی چیف ایگزیکٹو بنا کر ایڈجسٹ کیا تھا اب بھی توقع یہی ہے کہ امریکہ دونوں بندوں کے درمیان صلح صفائی کرواکر انہیں اپنے مقام پر واپس لائیگا بس بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ جلدی جلدی اپنی فوج نکال رہا ہے۔

حلف برداری کی تقریب کے ایک دن بعد امریکی فوج کا انخلاء شروع ہوگیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حملہ اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب پر ہوا جبکہ عبداللہ پر کوئی حملہ نہیں ہوا گماں یہی تھا کہ حملہ طالبان نے کیا ہوگا لیکن ذمہ داری داعش نے قبول کرلی اگر داعش نے حملہ کرنا تھا تو دونوں تقاریب پر کرتی ایک کو نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اشرف غنی نے حلف برداری کے بعد اپنے خطاب کا بڑا حصہ فارسی میں کیا لیکن راکٹوں کے گرنے کے بعد انہوں نے پشتو میں بات کی اور اپنا گریبان کھول کر بتایا کہ وہ بے خوف ہیں اور انہوں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنا ہے اس موقع پر وہ بے حد جذباتی دکھائی دے رہے تھے۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ جب فاٹا کے مشران علی وزیر اور محسن داوڑ شرکت کیلئے آئے تو تمام شرکاء احتراماً کھڑے ہوگئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کا افغانستان میں کافی اثر موجود ہے یہ الگ بات ہے کہ واپسی پر ان کی جو گوشمالی ہوگی وہ کافی سخت ہوگی۔

اصولاً تو کوئی گوشمالی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان کا نام ای سی ایل میں تھا اور وزیراعظم کی ذاتی مداخلت سے انہیں جانے کی اجازت دی گئی دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے عبداللہ عبداللہ کی بجائے اشرف غنی کی حمایت کا اعلان کیا ہے لہٰذا اشرف غنی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں پشتونخواء کے جن رہنماؤں کو مدعو کیا تھا اس پر اعتراض اور کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تقریب میں تو محمود خان اے این پی کے رہنماؤں اور بھائی آفتاب شیرپاؤ نے بھی شرکت کی جو اظہار خیر سگالی کی علامت ہے جس طرح کرتارپور کو مشرقی پنجاب کے سکھوں کیلئے کھول دیا گیا ہے اسی طرح کابل اور قندھار بھی پاکستانی پشتونوں کیلئے کئی اعتبار سے اہم ہیں لہٰذا دونوں طرف کی آبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی روک ٹوک کے بغیر ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب آئیں جائیں۔

پشتون پاکستان کیلئے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے کسی تاخیر کے بغیر پشتون صدر کی حمایت کر دی یہ پاکستان کی نئی پالیسی نہیں ہے سابقہ ادوار میں بھی شمالی اتحاد کی بجائے پشتونوں کی حمایت کی گئی ہے۔

افغانستان پر امریکی حملہ سے قبل جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارے لئے پشتون اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ سرحد کے دونوں طرف پشتون رہتے ہیں اور ان کی زیست و موت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔

جب مشرف نے یہ بات کہی تھی تو افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی یہ الگ بات کہ مشرف نے یوٹرن لے کر طالبان حکومت کے خلاف اپنے زمینی آبی اور فضائی مستقر امریکہ کے حوالے کر دیئے جس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت ختم ہوگئی امریکہ نے پاکستان کے تعاون سے حامد کرزئی کو کوئٹہ سے اٹھا کر پہلے قندھار اور بعد ازاں کابل پہنچا دیا پھر وہ امریکہ کی آشیرباد سے افغانستان کے حکمران ہوگئے۔ حامد کرزئی ایک بردبار اور مناسب شخصیت تھے انہوں نے بہت ہی مشکل حالات میں حکومت چلائی اور ایک دن سکون سے نہیں گزارا لیکن وہ افغانستان چھوڑ کر جلا وطن نہیں ہوئے جو بھی حالات تھے ان کا مقابلہ کرتے رہے ان کے بعد امریکہ نے اشرف غنی کو آزمایا جو اقتصادی امور کے ماہر تھے حامد کرزئی سے زیادہ پڑھے لکھے اور زیادہ قوم پرست ہیں لیکن ان کی دوسری مدت زیادہ طویل نہیں ہوگی امریکہ ایک بار پھر اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑ کر جا رہا ہے یا انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ رہا ہے طالبان جو حشر افغانستان اور قوم پرستوں کا کریں گے وہ نوشتہ دیوار ہے ہونا یہ چاہیے تھا کہ پشتون اور تاجک مل کر حکومت کا مقابلہ کرتے لیکن وہ حسب سابق اختلافات اور تقسیم کا شکار ہو گئے ہیں۔

افغانستان نے صرف ظاہر شاہ کے دور میں امن و سکون دیکھا تھا اس کے بعد وہ مسلسل خانہ جنگی اور تباہی کا شکار رہے نور محمد ترہ کئی سے لے کر ڈاکٹر نجیب تک پاکستانی مقتدرہ نے ہر پشتون قوم پرست حکومت کی مخالفت کی ہے یہی وجہ ہے کہ آج لال ٹوپی والے زید حامد سے لے کر سراج الحق تک ان رہنماؤں کے بارے میں ایک ہی بیانیہ ہے اور یہ سارے مل کر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ طالبان بھی پشتون ہیں اور وہ پشتون قوم کے مفاد کے خلاف نہیں جائیں گے بے شک وہ اپنے ملک کا نام اسلامی امارات رکھیں یا نفاذ شریعت کا اعلان کریں لیکن وہ پشتون روایات سے زیادہ انحراف نہیں کرسکتے جب ملا محمد عمر امیر المومنین تھے تو ان کی پوری کابینہ میں کوئی غیر پشتون نہیں تھا اسی طرح انہوں نے پشتو کو افغانستان کی قومی زبان قرار دیا تھا اگر وہ قوم اور لسان پر یقین نہیں رکھتے تو پشتو کی بجائے عربی کو قومی زبان قرار دیتے البتہ طالبان کا ایجنڈا قوم پرست رہنماؤں سے مختلف ہے ان میں سخت گیری بھی زیادہ ہے اور دشمنوں کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت بھی بہت ہے معلوم نہیں کہ طالبان کتنی مدت تک اشرف غنی کی حکومت اتار پھینکیں گے لیکن اس سے قبل خونریزی کا بڑا احتمال ہے اگر اشرف غنی یا تاجک رہنماؤں نے مزاحمت اور مقابلہ کی ٹھانی تو افغانستان ایک بار پھر بدترین قتل و غارت گری دیکھے گا جبکہ ایک مستحکم افغانستان علاقائی امن کیلئے بہت ضروری ہے یہ جو عمران خان نے اشرف غنی کی حمایت کا اعلان کیا ہے وہ عجلت اور سوچے سمجھے بغیر کیا ہے کل اگر طالبان نے یہ حکومت گرانے کیلئے حملے شروع کر دیئے تو اس وقت پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ آیا وہ طالبان کے ساتھ دے گا یا اشرف غنی کی حمایت جاری رکھے گا۔

چند روز قبل کراچی میں مفتی اعظم پاکستان رفیع عثمانی طالبان کی کامیابی و کامرانی کے حق میں دعا کروا رہے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سنی علماء کی اکثریت طالبان کی حمایت کر رہی ہے یوپی سے تعلق رکھنے والے مفتی نے طالبان کی سابقہ حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تھا حالانکہ سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے حال ہی میں مولانا فضل الرحمان انہیں اپنے جلسہ میں لے گئے لیکن انہوں نے سیاسی تقریر سے گریز کیا۔

ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر طالبان برسراقتدار آگئے تو اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کس نوع کے ہونگے، آیا پاکستان ماضی کی طرح طالبان کو اپنا دوست سمجھے گا یا طالبان ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کریں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ سعودی عرب جو حکم دے گا اس کی تعمیل ہوگی ساتھ میں امریکہ کو خوش رکھنے کی کوشش بھی جاری رکھی جائے گی۔
ماضی میں پاکستانی حکمران افغانستان کو اپنی تذویراتی گہرائی قرار دیتے رہے ہیں لیکن امریکی حملہ کے بعد یہ خیال اپنی موت آپ مر گیا اس کے باوجود خوش فہمی قائم ہے۔

افغانستان پاکستان جتنا بڑا ملک ہے اس کا جغرافیہ بہت اہم ہے ایک طرف وسط ایشیاء دوسری جانب مشرق وسطیٰ اسے ایشیاء کا دل بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ دل زخمی ہے نہ جانے اسے مزید کتنے زخم سہنا پڑیں گے۔ انگریز جو کرگئے اس کی تلافی شاید ہی کبھی ممکن ہو۔ افغانستان کافی عرصہ تک ہیروئن کی پیداوار کا بڑا مرکز تھا امریکہ کی موجودگی کے باوجود یہ پیداوار نہ رک سکی لیکن اس کی ترسیل کا ذریعہ پاکستانی راستے ہیں اور بہت ہی طاقتور عناصر اس میں ملوث ہیں اس اہم تجارت کے ذریعے افغانستان کو کم اور دیگر ممالک کو زیادہ فائدے حاصل ہوئے ہیں یہ ”نارکوٹریڈ“ صرف افغانستان کیلئے ناگزیر نہیں ہے بلکہ کئی ممالک کی اشد ضرورت ہے جب تک نارکو ٹریڈ رہے گا اسمگلنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ سرحدی ممالک کے درمیان اشیاء کی ترسیل کافی پرانا کاروبار ہے لہٰذا لوگوں کی آمدورفت کو روکنا بھی ممکن نہیں ہے چاہے جتنی مضبوط آہنی دیوار کیوں نہ کھڑی کی جائے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ مشر محمود خان، آفتاب شیرپاؤ، اسفند یار ولی یا افراسیاب خٹک کو یہ کہہ کر جانے سے روکا جائے کہ افغانستان الگ ملک ہے دونوں طرف ایک مشترکہ کلچر زبان اور خون کا رشتہ ہے افغانستان کے لوگوں نے دو صدیوں میں اتنا خون بہایا ہے کہ اگر اسے پھیلایا جائے تو آمو سے آباسین تک ہر جگہ زمین لال رنگ کی ہو جائے گی۔

وقت آگیا ہے کہ افغانستان کو جینے کا حق دیا جائے وہاں کے بچوں کو بھی ایک نارمل زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے عدم مداخلت کی پالیسی اپنا کر تمام ممالک افغانستان کو ایک مستحکم ملک بننے دیں تاکہ اس خطے کو لاحق خطرات کم ہو جائیں وقت کی استعماری طاقتوں کو چاہیے کہ افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں ورنہ افغانستان میں لگی آگ سب کو متاثر کرے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔