بہادر باپ کی نڈر بیٹی – میرک بلوچ

606

بہادر باپ کی نڈر بیٹی

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سچائی اور حقیقت کی صورتیں سامنے آتی ہیں، تو جھوٹ و فریب کی بد نما لباس پہنے بھیانک چہرے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ جب رعنایاں اپنی خوبصورت توانائی سے جلوہ افروز ہوتے ہیں، تو ظلمت کے تاریک سیاہ پیراہن اپنی بوسیدگی اور غلاظت سے تار تار ہوجاتے ہیں۔ جب پرنور و پاکیزگی سے بھرپور روشن سحر کی تازہ کرنیں پھوٹتی ہیں، تو گھٹا ٹوپ اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور سنہری نیرنگیاں چہار سو بکھر جاتے ہیں۔ جب آگاہی کی ٹھنڈی فرحت بخش ہوائیں چلنی شروع ہوتی ہیں، تو حبس زدہ جہالت کی فضاء کو تبدیل کرکے تازگی رونقیں بحال کردیتے ہیں۔ جب پر فریب خوف زیست کو دہشت زدہ کردیتے ہیں ۔ معاشرے کو بانجھ بنا دیتی ہیں تو بے باکی و بہادری کی مینا برس کر تر و تازگی سے ہمت و جرآت کی سبز کونپلیں زندگی و سماج میں بو دیتی ہیں ۔

ایک بات یاد رہے کہ ہجوم ہمیشہ مداریوں، سماجی تماشہ دکھانے والے کے گرد جمع ہوتے ہیں، انقلابیوں اور سچے انسانوں کے پاس ہجوم نہیں ہوتے بلکہ جرآت مند نظریاتی ساتھی اور افراد ہوتے ہیں ۔ اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں اپنے مقاصد پر پورا بھروسہ و یقین ہوتا ہے۔ انہیں اس چیز کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کٹھن راہوں میں کس قدر دشوار مراحل آتے ہیں۔ کتنی تکلیفیں اور پریشانیاں برداشت کرنی پڑتی۔ وہ صرف آگے بڑھتے ہیں لگن کے ساتھ، یکسوئی کے ساتھ، بہادری کے ساتھ ،شجاعت کے ساتھ ،نفاست کے ساتھ ،عزم و حوصلے کے ساتھ ۔

مگر تماشہ سجانے والے شعبدہ باز و مداری کلچر کے نام پر بے حس و بے شعور ہجوم جمع کرتے ہیں۔ خود نمائی و جہالت کی ان مجلسوں میں ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قوم تو بہت خوش ہے، ان کے پاس راحت ہی راحت ہے۔ عیش کوشی ہے، مسائل ختم ہوچکے ہیں، دکھ و رنج کا نام و نشان نہیں۔ اور پھر ان شعبدہ بازوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کی ان اوچھی حرکتوں کو مظلوم قوم داد و تحسین سے نوازے گی اور یہ شعبدہ باز اپنے سرپرست و آقاوں سے نذرانے لیکر مزید شعبدہ بازیوں کی تیاری جاری رکھیں گے۔

دوسری شعبدہ بازوں کی ایک اور کھیپ ادب و زبان کے نام پر مختلف اسٹیج سجاتے ہیں، بے مقصد و بے سروپا کتابوں کے انبار لگاتے ہیں، نام نہاد ادبی دیوان و مجلس منعقد کرتے ہیں، لالچ و ترغیب سے ایوارڈز کا اجراء کرتے ہیں ۔ ادب برائے ادب کے ذریعے زبان و ادب کو محدود کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ قوم کے سچے ادیبوں و دانشوروں کی شعوری توہین و تذلیل کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ محض اتفاقات ہیں؟ یا سوچی سمجھی منصوبہ بندیاں ہیں؟ آخر یہ تمام شور و غوغا کس مقصد کیلئے ہیں؟ ان کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آرہے ہیں؟ اچانگ سے ان کو زبان و ادب اور کلچر کا درد کہاں سے پیدا ہوگیا ہے؟ ان کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں؟

ان سب شور شرابے سے دور بہت دور ایک نہتی بچی جرءت و بے باکی سے اکیلی کھڑی ہے ۔ اس کے پاس ہجوم نہیں ہے ۔ اس کے پاس تماشائی نہیں ہیں۔ اس کے پاس جھوٹے بزدل نام نہاد دانشور نہیں ہیں ۔ اس کے پاس خودستائی کے دلدادہ نہیں ہیں ۔ اس کے پاس ریا کار و چاپلوس نہیں ہیں۔ اس کے پاس ڈھونگی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ شعبدہ باز مداری نہیں ہے ۔ پھر وہ کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ وہ کیا چاہتی ہے؟ وہ اکیلی کیوں ہیں؟ وہ ان سب سے دور کیوں کھڑی ہے؟ یہ سب اس کے پاس کیوں نہیں جاتے ہیں؟

اس لئے کہ وہ بے باک و بہادر ہے۔ وہ سچ بول رہی ہے، اسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے ۔ وہ لگن کے ساتھ، حوصلے کے ساتھ، ہمت و استقلال کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیونکہ وہ بہادر باپ کی بیٹی نڈر بیٹی ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ بانک ماہ رنگ بلوچ ہے۔ اپنے نام کے مناسبت سے وہ روشنی بکھیر رہی ہے۔ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ سچ ہی تاریخ مرتب کرتی ہے ۔ اور سچ ہی تمام مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتی ہے۔ بانک ماہ رنگ کی عظیم جدوجہد سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دھرتی بانجھ نہیں ہے۔ بانک ماہ رنگ اس عظیم باپ کی بیٹی ہے جس نے عقوبت خانے میں شدید تشدد کے باوجود سر نہیں جھکایا اور آخری دم تک اپنے عظیم نظریئے پر قائم رہا۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ بانک ماہ رنگ ثابت قدمی سے کھڑی رہے گی اور مستقل مزاجی کو اپنا طرہ امتیاز بنائے گی سچ کے ساتھ بانک ماہ رنگ کو سلام۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔