ہم کہاں ہیں؟
تحریر: مہروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ان لفظوں کے آگے سوالیہ نشان شاید میرا اپنا ذاتی ہو۔ کیا میں بذات خود یہ سوال اپنے ذات سے پوچھنے کا اہل ہوں؟ کیا واقعی میں جانتا ہوں کہ میں کہاں ہوں؟ اگر ان سوالوں کا جواب میرے پاس موجود ہے تو ان سوالات کے پیچھے واقعی کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا کہ میرا خود آخر مکمل کیسے ہوا کہ میں اس خود کو جان پا رہا ہوں، میرا خود مجھے کس مقام میں لے جاکر کھڑا کر دیتا، کیا یہ خود کسی اندھیرے سرنگ کے دہانے پہ شروع ہوکر وہی اختتام پزیر ہو رہا ہے؟ اگر ہاں تو یہ میرا خودی نہیں ہوسکتا اگر اس سرنگ کے دہانے پر ایک جانب میں ہوں اور دوسری جانب میرے وجود کو ماننے اور اسے تصدیق کرنے والے موجود ہوں اور یہ کہنے پر بضد ہوں کہ تم ہو، تبھی تو تم سرنگ کے دہانے پہ کھڑے ہو اور اپنی خودی کو جان کر یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ تم ہو۔
میرا ہونا شاید میرے لئے کبھی باعثِ فخر نہ ہو، پھر میرا ہونا شاید دوسروں کے لئے ہر آنے والے لوگوں کے لئے باعث فخر ہو جیسا کہ ہم دنیا کے تحریکوں کے بارے میں پڑھتے ہیں اور انکے ہیروز کے کارنامے رٹا کر سر بلندی سے بتاتے ہیں اور کبھی تھکتے بھی نہیں، اگر کہیں تھمنا ہو تو پیاس نہ آنے کی وجہ بتا کر چاروں سمت فلسفہ پیش کرکے تمام مسائل کا حل یوں چٹکیوں میں بتاتے ہیں، جیسے ھم کوئی عقل کل ہوں۔ کیا ان ہیروز کا عملی زندگی و علمی و شعوری نشوونما اس لئے ہوا تھا کہ کوئی انکے بارے میں بات کر سکے یا اس لئے کہ ان کو پڑھنے کے بعد سمجھ کر ہر پڑھنے والا اپنے لئے کوئی جامع طریقہ متعارف کرواسکے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک آرٹیکل پڑھنے کو ملا، لکھا تھا کہ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجھے آج تک ایک سیاسی بندہ نہیں ملا۔ شاید یہ بات کافی حد تک درست ہو کہ آج تک ایک سیاسی بندہ نہیں ہے تو آخر کیوں نہیں؟
شاید ہہاں کیوں کا لفظ استعمال کرنا برمحل نہ ہو، مگر اس کیوں کے پیچھے کیا عوامل ہیں ۔ جنگیں قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں، جنگیں ہی آنے والے نسلوں کے لئے خوشحالی و ترقی کی راہ ہموار کرسکتی ہے، جنگ ہی لوگوں میں اس جذبے کو پروان چڑھانے کی سیڑھی کا کام کرتی ہے، جہاں فرد ہیروز کے نام سے جانے جائیں گے آج مرنے والے کی تعداد تو بہت ہے مگر قومی محاذ پر قربانی دینے والا، آنے والے نسلوں کے لئے بطور ہیرو زندہ و جاوید رہے گا۔ زندگی کو معنی دینے والا زریعہ جنگ ہی بن چکا ہے، ظلم و جبر و استعماری طاقتوں کے نیچے زندگی گذارنے والا ہمیں زندگی کے معنی بتا سکتا ہے۔ بمقابلہ لگژری زندگی گزارنے والے کے ایک انسان کے لیے زندگی کے معنی ایک دم سے بدل جاتے ہیں، جب وہ اپنے چاروں طرف ظلم و جبر کے بازار کو گرم ہوتے ہوئے دیکھتا ہے، جب مائیں آنسو بہانے کے بجائے اپنے فرزندوں کی شہادت پر فخر سے کہتے ہیں ایک میرے تمام فرزند قومی جہد کے لئے قربان ہیں۔ یہ جنگ ہی ہے جس نے اس ماں کے دل میں قومی بیداری، قومی جدوجہد، قومی آزادی کو سب سے بلند مقام پہ پہنچا دیا ہے۔ یہ جنگ ہی ہے جس نے بچوں سے انکا بچپن، چھین کر نئی زندگی کے لئے رہنمائی کی، یہ جنگ ہی ہے جس نے لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر در بہ در زندگی گذارنے پر مجبور کردیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جنگ نے لیڈر، کیڈر، شاعر و ادیب، گلوکار، استاد، تنقید نگار اور سفارت کار پیدا نہیں کئے؟ تو اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں کیوںکہ مجھ کم علم انسان کے لئے ان سوالوں کا جواب نہیں، شاید سوال اٹھانے والا بہتر جانتا ہو، آج بین الاقوامی سطح پر ھم کتنا منظم ہیں؟ ہمارے دشمن ہمارے سرزمین پر اخلاقی شکست سے تو اول دن سے ہی دوچار ہے کہ یہ اس زمین کے خطے کو محض بین الاقوامی مفادات کے تحت ہی بچایا سکتا ہے، کیا یہی اخلاقی شکست ھم بین الاقوامی سطح پر نہیں دے سکتے کہ آج محاذ پہ دشمن اپنے ہتھیار پھینک کر بھاگنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
آج جنگ نے ہر فرد و لیڈر کے کردار کو واضح کردیا ہے، آج جنگ ہر گلی سے لے کر ہر شہر تک پہنچ چکا ہے، آج جنگ کے معیارات تبدیل ہوچکے ہیں، آج لڑنے والا ہر قومی سپاہی اس بات سے واقف ہے کہ وہ کیونکر اور کس لئے اس محاذ کا حصہ ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر ریاستی اداروں تک سامراجی قوتوں کا قبضہ اس بات کا گواہ ہے کہ دشمن شکست سے دوچار ہے مگر آج ریاست کے لئے ہر وہ بلوچ جو ایک خطرہ تھا آج نہیں ہے، مثال یہی ہے کہ آرمی کے لئے کل بلوچ کلچرل ڈے خطرہ تھا مگر آج نہیں ہے کل بلوچ علاقوں کو شہروں کو ویران کرنا ضروری تھا آج نہیں ہے، کل ہر فرد کے لئے کمبر چاکر فخر کا علامت تھا آج اس جگہ کسی کمشنر آفیسر نے لے لیا، کل ھم ہجوم کی شکل میں تھے آج گروہ کی شکل میں، میں اسے تحریک کا ارتقاء کہوں گا، شاید میں غلط ہوں ۔ سیاسی مقاصد کا قائم رہنا نظریہ کا زندہ و جاوید رہنا یہی قومی جہد مسلسل کی نشانی ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔