گرین زہری شجر کاری
تحریر: وش دل زہری
دی بلوچستان پوسٹ
یہ انسان کی فطرت ہے، اُسے چاہے جتنی بار بھی تخریبی دنیا کا سیر کرایا جائے مگر پھر بھی وہ اپنے سرشت کا ایک عمل ضرور سامنے لے آکر عقلی فیصلوں میں علمی ضرب لگاتا ہے، جس سے شعور کا پودا اُگنے لگتا ہے اور پھر اس شعوری پودے کو زندہ رکھنے کیلئے انسان کو مزید قدرت و فطرت پر سوچنے کا موقع ڈھونڈنا پڑتا ہے اور یہی کوششیں اس پودے کو آب کی شکل میں مہیا رہتے ہیں اور ایک دن یہ پودا، شجر کا روپ دھار کر چھاؤں کی چھتری بناکر خیرِانسانی کیلئے کام کرنا شروع کر دیتا ہے، بیشک اگر اس سیارے پر درخت کا وجود نہیں ہوتا تو میں، انسان کے فطرت و جبلت کی مثال کہاں سے لیتا، ظاہر سی بات ہے بارودوں کے پھٹنے سے اُٹھتا ہوا دھواں تو قدرت کیلئے ہرگز مثال نہیں بن سکتا.
کچھ عرصے سے گرین زہری شجری کاری کی ایک مثبت مہم اہلِ زہری نے بڑی مخلصی و جستجو سے شروع کر دیا ہے، یقیناً یہ عمل شعوری پیغام بلکہ ایک شعوری اعلان ہے، مورخین نے اگر مستقبل میں تاریخ کا ایمانداری سے جائزہ لیا تو یہ مثبت عمل ضرور ان سے قلمبند ہوگا کہ دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں جنگلات سرمایہ کاری کا بھینٹ چڑھائے جا رہے تھے ایموزون اور آسٹریلیا کے جنگلات آگ کے زد میں تھے تو دوسری جانب دنیا میں بھوک و افلاس کے فہرست میں سر فہرست آنے والا خطہ بلوچستان سیرابی کی جانب رواں دواں تھا.
ریاست کے مختلف حصوں میں بلوچ قوم کو جنگلی، جاہل، وحشی اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے اپنے نصابی کتابوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے لیکن بہت اطمینان محسوس ہوتا ہے جب ایسے مثبت عمل ہمیں اپنے سرزمین پر رونما ہوتے نظر آنے لگتے ہیں، جس سے صرف آج نہیں آنے والا کل بھی خوبصورت، سرسبز اور فائدہ مند ثابت ہوگا اور اس بات سے کوئی باشعور انسان ہرگز انکاری نہیں ہوسکتا کہ مثبت کردار، انسان دوستی اور مثبت عقائد رکھنے والے کبھی بھی وحشی اور جاہل نہیں ہو سکتے اور بیشک ہر گھناونے الزام کا جواب باشعور انسان اپنے مثبت عمل سے ہی دیتا ہے.
اس وقت بلوچستان کینسر جیسے موذی مرض کے زد میں ہے، سالانہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہمیں اُٹھانا پڑ رہا ہے، یہ مہلک وباء کیسے پھیلا کس طرح پھیلا یہ ایک الگ موضوع ہے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن اس وباء سے چھٹکارہ پانے کا ایک بہترین اور آسان طریقہ شجر کاری ہے بلکہ ایسی بہت سی بیماریاں ہیں جو درختوں کی موجودگی میں مکمل ختم ہوجاتے ہیں، ماہرینِ ماحولیات کے مطابق درخت ایک ایسا انسانی صحت کیلئے دفاعی ذریعہ ہے جو ہمیں خوراک مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل کئی ایسے آلودگی سے بھی بچاتا ہے جو انسان کے اپنے پیدا کردہ مصنوعات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے اندر ایندھن پر چلنے والے مشینریوں سے ابھر کر فضاء میں پھیل جاتے ہیں اور طرح طرح کے مرض لیئے ہمارے آس پاس پھیل رہے ہوتے ہیں اور ہمیں اس کا گمان تک نہیں رہتا لیکن درخت اس کا مقابلہ کر رہا ہوتا ہے، اکثر آپ نے دیکھا ہوگا فیکٹریوں کے آس پاس درختوں کے پتے مرجھائے ہوئے سے لگتے ہیں دراصل وہ ان آلودگیوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں جو آس پاس کے فیکٹریوں سے ابھر کر ہوا میں تحلیل ہوتے ہیں، اور درخت ہمیں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ماحول کو درست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، آکسیجن فرہم کرنا، تپش کے بڑھتی ہوئی حرارت کو کنٹرول کرنا بارش کا باعث بننا اور ہوا کے توازن کو برقرار رکھنے میں بھی درخت کا اہم کردار ہوتا ہے.
درخت زمین پر انسانی صحت کیلئے مثبت سامان ہوتا ہے اور خدا کے کئی بنائے ہوئے مخلوقات کے حیات کا دارو مدار بھی ان درختوں کے ذریعے ہوتا ہے. درختوں کی تاریخ صدیوں پُرانی ہے، آج سائنس ہر پودے، ہر درخت کا الگ کھوج لگا رہی ہے، ہر درخت اپنا ایک پختہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، اس بات سے ہمارے وہ طالب علم بخوبی واقف ہونگے، جو ایگریکلچر سے وابسطہ درسگاہوں میں موجود ہیں۔ اُن سب طالب علم اور قابل احترام اساتذہ سے ہماری التماس ہیکہ اس شجرکاری میں ہر اُس فرد کو سائنسی طریقے سے آگاہ کریں جو اس مہم کا حصہ ہیں تاکہ آپ کے مشاہدات و تجربات کے بدولت اُن کے محنت کا ضیاع نہ ہو اور اُس کی امید کی شجر مایوسی کے آندھی اور طوفان کا نذر نہ ہوجائے، ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو زیادہ سے زیادہ اس مثبت عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے اُن کے پاس تجربات و مشاہدات کے بہت سارے طریقے موجود ہوتے ہیں کیونکہ وہ سب کتابوں کی سمندر میں غوطہ آزمائی کرچکے ہیں، دنیا میں جہاں کہیں بھی سیاحتی مقامات موجود ہیں وہ قوموں کے مہذب ہونے کا ثبوت دیتے ہے لہذا اس مہم میں ہر کوئی کم از کم ایک شجر لگا کر اپنا حق ادا کرے، اسی طرح ہر فرد نے ایک درخت لگاکر اُسے سنبھالا گویا اُس نے اپنا حق ادا کردیا.
بلوچستان کے دیگر علاقے بالخصوص زہری میں اس پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، اس میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے یہ ہمارے لئے ہمارے معاشرے کیلئے ایک بہت ہی بہترین اقدام ہے اور جب نوجوان طبقہ جس کام کا بیڑا اُٹھاتے ہیں وہ کبھی بھی رائیگان نہیں جاتا، نوجوان طبقہ ہی تاریخ کے ہر مثبت پہلو کا حقیقی حقدار ہیں بشرطیکہ اُن کا ہر اقدام مثبت ہو، تاریخ گواہ ہے ہر مثبت نظریے اور فکر کی ابھار سب سے پہلے نوجوانوں میں پایا گیا ہے جو بھی عمل نوجوانوں “چاہے وہ مرد ہو یا خواتین” نے جب بھی جس عمل پر جستجو اور مخلصی سے یہ عزم کرکے آگے بڑھا ہے کہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر سکھ کا سانس لینا ہے تو انہوں نے کرکے دکھایا ہے اور امید ہیکہ اس شجرکاری کے مہم میں ہمارے بزرگوں کی بھی شمولیت ہوگی.
شجرکاری کے اس مہم کیلئے سائنسی طریقہ کار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے دنیا میں ایسے بھی ممالک موجود ہیں جہاں ڈرون کے ذریعے شجرکاری کا عمل باقائدہ شروع کردیا گیا ہے اور یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ انتہائی کم خرچے اور کم وقت میں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں پودے حاصل کیئے جاسکتے ہیں اور بہت سے ممالک ان تجربات سے مستفید ہورہے ہیں اور بھی کئی سائنسی طریقوں پر دنیا کے کئی ممالک کے اندر یہ کام ہو رہا ہے، خاص کر برطانیہ شجرکاری کو آسان بنانے کیلئے ایک ہیلی کاپٹر بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے، یہ ہیلی کاپٹر نرم مٹی پر بیجوں کی بارش کرکے شجرکاری کو دس گناہ زیادہ آسان کر دےگا۔ اس کے علاوہ باقی ایسے ممالک موجود ہیں جو یہ کام کرتے نظر آرہے ہیں ان میں بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے کم اقتصاد رکھنے والا ریاست بھی شامل ہے، ہمارے مالی مشکلات کی وجے سے ایسے شجرکاری کا موقع نہ صحیح لیکن جو عزم ابھی ہمارے نوجوانوں نے کر لیا ہے اس کیلئے کوئی آسان اور مفید طریقہ بھی سامنے ضرور آجائےگا، اس بارے تحقیق سے کام لیا جائے تو مزید اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے البتہ پہلے سے آزمودہ طریقوں کو اپنا کر شجر کاری کے مہم کو اور تیز کیا جا سکتا ہے جیسے مختلف ممالک میں جانوروں کو درختوں کے بیج بطور خوراک کھلایا جاتا ہے تاکہ پہاڑوں میں جانوروں کے زریعے آسانی سے بیج پھیلائے جا سکیں.
ایک کامیاب شجرکاری کا جدید طریقہ پرماکلچر کو قرار دیا گیا ہے، اس کا طریقہِ عمل اس طرح ہیکہ ایک سوراخ دار گھڑے کو زمین کے اندر مٹی کے برابر پانی سے بھر کر دبایا جاتا ہے، گھڑے کے آس پاس کم از کم تین یا چار پودے لگا دیتے ہے ایک تجربے کے مطابق یہ گھڑا چالیس دن بعد پھر پانی بھرنے کی مانگ کرتی ہے اور چھ مہینے کے عرصے میں یہ پودے جو گھڑے کے قریب لگائے گئے ہے درخت کا شکل اختیار لیتا ہے، اور ایسا ہی شجرکاری کا مہم مکران کے کسی دیہی علاقے میں ایک نوجوان نے تنہا شروع کیا تھا، شاید وہ ابھی بھی اپنے اس ہنر آزمائی میں مشغول ہو.
ایک مثبت کام شروع کرنے کے بعد آسانیوں کے تیکنیک خود زہنوں کے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دیتے ہیں اُمید ہے اس شجرکاری کے مثبت مہم کی بنیاد رکھنے والوں کو قوم کی جانب سے حوصلہ افزائی ہوگا اور یہ مہم کا مکمل سر سبزہ تک اختتام نہیں ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔