کریکر دھماکوں سے آسریچ تک
تحریر: سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کا اپنے معاشرے اور سماج سے تاریخی طور پر یہ رشتہ ہے اور سماج سے رشتے کا بنیاد ہی اس اصول پر قائم ہے کہ انسان اپنے سماجی رشتے برقرار رکھنے کیلئے اپنے آنے والی نسلوں کی بہترین مستقبل کیلئے جدوجہد کرتا ہے تاکہ آنے والے نسلوں کا مستقبل روشن ہو۔
بلوچستان میں جاری حالیہ جدوجہد کا یہ سلسلہ اگرچہ نیا نہیں ہے، مگر اس نئے سلسلے کا آغاز کریکر دھماکوں سے ہوتا ہے۔ اگر اس جنگ کے ابتدائی حالات پر بحث کی جائے کہ یہ جنگ کیونکر اور کن وجوہات پر شروع ہوا؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس جنگ کا بنیادی وجہ پاکستان کا وطن مادر پر غیر قانونی قبضہ ہے۔
لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسانی شعور میں صرف معروض کا عکس نہیں ہوتا بلکہ ردعمل کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اور یہ جنگ بلوچ قوم کا ریاست کیخلاف معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ ایک ردعمل بھی ہے۔ اس نظام سے اور اس قبضہ گیر سے دنیا کا رائج اصول یہ کہتے ہیں کہ” جو کچھ بھی ابھرتا ہے اس کو ختم ہونا ہے” وطن پر قبضہ گیر کے نظام کو بھی ختم ہونا ہے اور وطن کا آزادی محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ مگر کیا دنیا میں جتنے بھی قابض آئے، انہوں نے آسانی اور اپنی رضا سے زیر قبضہ علاقوں سے ہار قبول کی ہے یا قوم اور وطن کی جغرافیائی آزادی کو تسلیم کیا؟ تو اس کا جواب نہیں میں ہوگا۔
کیونکہ زندگی اور موت کی جنگ میں منطق نے کبھی بھی طاقت کی جگہ نہیں لی ہے اور نہ ہی لے گا۔ ہم چاہے ہزار دلائل دیں مگر قابض جو طاقت کا استعمال مقبوضہ علاقوں میں کرتا ہے تو اس کا جواب بھی طاقت سے دینا ہوگا نہ کہ دلائل اور منطق سے بلکہ اس جنگ کا بنیاد ہی اسی منطق پر ہے کہ پاکستان نے غیرقانونی طور پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے وطن پر قبضہ کیا ہے اور وہ بخیر و عافیت وطن کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہوگا بلکہ ایک شدید خونی مذاحمت قابض کو وطن چھوڑنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
تحریک کے ابتدائی ادوار، کریکر دھماکوں کو لے کر بلوچ مزاحمت کے حالیہ شدت کو دیکھ کر یہ فیصلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ بقول کلازویٹر دوسرے انداز میں سیاست کا تسلسل ہے۔ یعنی کہ جنگ جو قابض کیخلاف جاری ہے دراصل خطے میں بلوچ قوم کی سیاسی پوزیشن واضح کرنے کی جنگ ہے اور یہ پوزیشن تب واضح ہوگا جب آپ اپنے وطن پر با اختیار ہونگے یعنی آزاد ہونگے اور اقتدار آپ کے اپنوں کے ہاتھ میں ہوگا۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شعوری جنگ کا بنیادی نقطہ دور اندیشی، اندازے اور جرات کے ملاپ سے ہوتا ہے۔ اور اسی ملاپ کے بعد ہی قابض قوت کو آپ یہ باور کراسکتے ہیں یا مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ بوریا بستر باندھ کر لاشوں کو کندھا دیتے ہوئے زیرقبضہ علاقے سے نکل جائے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہوگا، جب آپ معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ موضوعی حقائق سے بھی باخبر ہونگے۔
آپسی کھینچا تانی سے لے کر اتحاد کے سفر کے بابت ہم یہ کہہ سکتے ہیں بلوچ مزاحمتی تحریک میں موجود ترقی پسند قیادت نے جب معروضی و موضوعی حقائق کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اتحاد و یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ تو عملی طور پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے، پہلے پہل اشتراک عمل کیلئے تیار ہوگئے اور جلد ہی ایک باضابطہ اتحاد کیلئے آگے بڑھ گئے اور ” براس ” تشکیل دی گئی۔ اور اسی پلیٹ فارم سے کاروائیوں کا آغاز کیا گیا اور قلیل مدت میں اہم اہداف پر توجہ مرکوز کرکے ان اہداف پر حملوں کا آغاز کیا۔ اور ایک وسیع آپریشن آسریچ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اور اس آپریشن کے ابتدا میں ایک کیمپ پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو ہلاک و اسلحہ بارود کو ضبط کیا گیا۔ مگر یہ اب بھی ضروری ہیکہ اس حوالے سے مزید انتظامات کیئے جائیں اور کاروائیوں کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے اور آنے والے وقت میں بلوچستان کے طول و عرض میں ایسے کاروائیوں کے ساتھ ساتھ مزید جنگی تکنیک اور حکمت عملیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وطن کا دفاع کیا جائے۔ اور اجتماعی قومی حمایت سے استفادہ کیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔