پاکستان فوج ہٹلر کی نقش قدم پر
تحریر: مولوی عبدالحق بلوچ مستونگی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے علاقوں میں کتب فروشوں پر چھاپے مارے ہیں، کتاب فروخت کرنے والوں کی دکانیں سِیل کرکے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں۔ ان کے مطابق اس کتاب میں بلوچ نوجوانوں کو پاکستان سے علیحدگی پر اکسانے کے علاوہ دیگرایسا ممنوعہ مواد شامل کیا گیا ہے جوکہ ملک سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اس طرح ہزارواں کی تعداد میں کتابیں نذرآتش کردیئے گئے۔
کتابوں کو نذر آتش کرنے” سے مراد کتابوں کو روایتی طور پر تباہ کرنا ہے۔ یہ اقدامات عوامی طور پر سب کے سامنے کئے گئے اور ان کتابوں کے مواد کی ثقافتی، مذہبی اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے کیا گیا۔ نازی وزیر برائے مقبول روشن خیالی اور پراپیگنڈا جوزف گوئبل نے 1933 میں جرمن فن و ثقافت کو نازی نصب العین سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ حکومت نے ثقافتی تنظیموں کو یہودیوں اور ایسے لوگوں سے پاک کرنا شروع کردیا جو سیاسی طور پر مشتبہ سمجھے گئے یا پھر جنہوں نے ایسے فن میں کام کیا اور اسے تخلیق کیا جسے نازیوں نے “گھٹیا” قرار دیا۔ جرمن یونیورسٹیوں کے طالب علم شروع کی نازی تحریک کے علمبردار تھے۔ درمیانے طبقے کے سیکولر طلباء تنظیموں کی شدید قوم پرستی اور یہود مخالفت کئی دہائیوں سے شدید اور زور دار آواز کی حامل تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد بہت سے جرمن طالب علموں نے جمہوریہ ویمار (1919 – 1933) کی مخالفت کی اور قومی سوشلزم میں اپنی سیاسی بے اطمینانی اور دشمنی کی تحریک پائی۔
چھ اپریل 1933 کو نازی جرمن طلبا کی تنظیم نے یونائٹڈ جرمن اسپرٹ کے خلاف ملک بھر میں کارروائی کو انتہاء کی جانب لیجاتے ہوئے ادبی پاکیزگی یا “صفائی” کی خاطر کتابوں کو نذر آتش کرنے کا اعلان کیا۔ جارحانہ اہمیت کے علامتی اقدام کے طور پر 10 مئی 1933 کو یونیورسٹی کے طلباء نے 25,000 کے لگ بھگ “غیر جرمن” کتابوں کو نذر آتش کرتے ہوئے ثقافت پر ریاست کے کنٹرول اور پاندیوں کے عہد کا آغاز کر دیا۔ 10 مئی کی شام کو 34 یونیورسٹی ٹاوّنز میں “غیر جرمن اسپرٹ کے خلاف” مشعل بردار جلوس نکالا۔ تحریر شدہ رسومات میں اعلیٰ نازی اہل کاروں، پروفیسروں، یونیورسٹیوں کے ریکٹروں اور یونیورسٹی طلبا راہنماوّں کو شرکاء اور شائقین سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ جلوس کے مقامات پر طلبا نے “غیر مطلوبہ” کتابیں ایک شاندار تقریب میں آگ کے الاوّ میں پھینکیں۔ اس دوران بینڈ بجتا رہا اور شرکاء نے “آگ کے عہد” لئے۔ برلن میں جوزف گوئبلز کی تقریر سننے کیلئے 40 ھزار کے لگ بھگ لوگ اکٹھے ہوئے۔
طلباء لیڈروں نے اُس رات جن مصنفین کی کتابیں نذر آتش کئیں۔ اُن میں برٹول بریخٹ جیسے مشہور سوشلسٹ؛ اشتراکیت کے نظریے کے خالق کارل مارکس؛ آسٹرین ڈرامہ نگار آرٹھر شنٹزلر جیسے تنقید نگار بورژوائی مصنف اور “خراب کرنے والے غیر ملکی اثرات” شامل ہیں۔ ان غیر ملکی اثرات میں امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے بھی شامل تھے۔ نذر آتش ہونے والی کتابوں میں نوبل انعام یافتہ جرمن مصنف تھامس مان اور مصنف ایرک ماریہ ریمارک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابیں بھی شامل تھیں، جن میں جنگ کا تذکرہ ‘آل کوائیٹ آن دا ویسٹرن فرنٹ’ نازی مکالمے بھی آگ میں پھینکے گئے۔ بلیک لسٹ ہونے والے دیگر مصنفین میں امریکی مصنف جیک لندن، تھیوڈور ڈرائیزر اور ہیلن کیلر شامل تھیں، جن کے سماجی انصاف میں یقین نے اُنہیں معذور افراد کی صورت حال اور جنگ کی مخالفت جیسے موضوعات اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
10 مئی کا ملک گیر پروگرام کامیاب رہا اور اخباروں میں وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر ہوئی۔ ریڈیو نشریات میں جرمن سامعین کی توجہ ہٹانے کیلئے تقریریں، گانے اور رسمی گفتگو “براہ راست” نشر کی۔ جن مصنفین کی کتابیں نذر آتش کی گئیں اُن میں فطری طور پر یہودی مصنف بھی شامل تھے۔ ان میں فرانز ورفل، میکس براڈ اور اسٹیفن زویگ شامل تھے۔ مجمعے نے انیسویں صدی کے مقبول جرمن یہودی شاعر ھائنریخ ھائن کی تحریریں بھی نذر آتش کر دیں، جنہوں نے 1820 میں “جہاں وہ کتابیں نذر آتش کریں گے، وہ بالآخر لوگوں کو بھی جلا ڈالیں گے” لکھی تھی،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔