نوجوان مزاحمت کا استعارہ
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کے لئے ہمیشہ مختلف حربے استعمال ہوتے رہے ہیں کیونکہ مقتدر قوتیں نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے نوجوان علم حاصل کریں، اور علم و شعور کے ہتھیار سے لیس ہوں کیونکہ جس معاشرے نے علم کی اہمیت کو جاننا ہے وہ ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرکے آگے بڑھے ہیں اور آج وہ قومیں دنیا پر ٹیکنالوجی کے ذریعے حکمرانی کررہے ہیں، قومیں سائنس کی میدان میں ہر روز نئے ایجادات کرکے آگے بڑھ رہے ہیں، ہم بد نصیب اقوام آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے لیکن دنیا مریخ پر زندگی ڈھونڈ رہی ہے، ہم آج بھی تعلیم، صحت، روزگار کے لئے سرگرداں و پریشان ہیں، لیکن ترقی یافتہ قومیں تعلیم و صحت کے میدان میں انقلاب برپا کرکے تحقیق و تخلیق کے نئی نئی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، آج اتنے وسائل کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم کیوں جہالت، پسماندگی، بھوک و افلاس، بیماریوں اور بے روزگاری کا شکار ہے، وسائل سے مالا مال دنیا کی امیر خطے کے وارث تعلیمی سہولیات کے لئے روڈوں پر سراپا احتجاج ہے، لیکن ان ہی کے وسائل ریکوڈک سے پاکستان کے حکمران اپنے قرضے اتارنے کی اعلان کرتے ہیں، وہ قرضے جو بلوچ قوم و بلوچ سرزمین پر واجب ادا نہیں وہ پیسے دنیا سے لیکر ایک مخصوض صوبے، قوم اور ایک طاقتور طبقے کی خوشحالی، ترقی اور کرپشن کے نذر ہوئے ہیں، یہ وہ واجب ادا قرضے ہے جو طالبان اور جہادی بنانے پر خرچ ہوئے ہیں، یہ وہ واجب ادا قرضے ہے جو موٹر وے بنانے پر خرچ ہوئے اور بلوچستان کے باسی قاتل سڑکوں پر آئے روز موت کی منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہم ڈبل ٹریک شاہراہ کے لئے مطالبہ کررہے ہیں۔ بلوچستان میں سڑکیں تو نہیں بنائی جائے گی لیکن ریکوڈک سے موٹرویز پر خرچ ہونے والے واجب ادا قرضے ادا کئے جائیں گے، یہ وہ واجب ادا قرضے ہیں جو بلوچستان میں آگ و خون برسانے پر خرچ ہوئے ہیں، یہ وہ واجب ادا قرضے ہے جو بلوچستان میں سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیمی اداروں کے بجائے قتل، گمشدگیوں، آپریشن و قبرستانوں پر خرچ ہوئے ہیں لیکن پھر بھی اپنی بدبختی اور تباہی میں استعمال ہونے والی قرضوں کو بھی ہمیں اتارنا ہے، اپنی نسل کشی کے واجب ادا قرضے ہمیں چکانا ہے۔
موت بانٹنا ہو تو لاوارث بلوچستان کا انتخاب کیا جاتا ہے، ایٹمی دھماکوں کے لئے بلوچستان کے پہاڑوں کو منتخب کیا جاتا ہے، انہی دھماکوں کے اثرات سے بلوچستان میں خشک سالی، مہلک و جان لیوا بیماریوں کا ڈیرہ ہے، کینسر نے بلوچستان میں پنجے گاڑھ کر موت کا جو رقص جاری رکھا ہے وہ ناقابل بیان ہے، اب کہا جارہا ہے کہ کرونا وائرس کے متاثرین کو گوادر میں لاکر آباد کیا جائے گویا اب باقی ماندہ نیم زندہ بلوچوں کو کورونا وار کے نذر کرکے صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش ترتیب دی جارہی ہے۔ بلوچستان کو ترقی دینے کے لئے یونیورسیٹیوں، اعلیٰ ریسرچ سینٹرز، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کی نہیں منشیات، ایٹمی دھماکوں، کورونا وائرس، کینسر کی ضرورت ہے۔
آج ہمارے نوجوان منشیات کیخلاف کمر بستہ ہوکر جہاد کررہے ہیں، شہید ہورہے ہیں، وہ یہ اب بخوبی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں جہالت، ناخواندگی اور منشیات کو عام کرنا نوآبادیاتی سازشوں اور جبر کا حصہ ہے، تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر مفلوج کئے جارہے ہیں، حصول تعلیم میں مختلف مشکلات حائل کئے جارہے ہیں، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ و پشتون طالبات کو تعلیمی اداروں میں تنگ کی جارہی ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیں، بلوچستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کے واش رومز میں کیمرے نصب کرنا، بولان میڈیکل کالج میں طالبات کیساتھ انتظامیہ کا نامناسب رویہ، نااہل وزراء کے جانب سے طالبات کی کیساتھ توہین آمیز رویہ یہ سب ہتھکنڈے ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے۔
منشیات کو عام اور تعلیم کو محدود کرنے میں ریاست، ریاستی ادارے، ریاستی سردار ایک ہی پیج پر ہیں ان سب کی ایک ہی خواہش ہے کہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم و کتاب کے بجائے بندوق ہو، بندوق بھی وہ نہیں جو ایک نظریے کا پابند ہے بلکہ بندوق بھی وہ جو ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے تابع ہو اور سرکار و سرکاری کاسہ لیس اس بندوق کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیں اور انکے کندھے استعمال کریں اور وہ چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو برباد کرکے منشیات کے اڈوں کو آباد کیا جائے نوجوان نسل سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر ذہنی طور پر ناکارہ ہوں لیکن اب نوجوان مقتدر قوتوں کی تمام سازشوں اور عزائم کو بھانپ چکے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ آپس میں الجھنے، کھینچا تانی کے بجائے ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں۔
سردار عطاء اللہ مینگل نوجوانوں کے نام اپنے ایک پیغام میں کہتے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں مت کھینچو ، ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا چھوڑ دو ، یہ مت سوچو کہ آپ لوگ کچھ نہیں کر سکتے، آپ لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں، اس وقت آپ لوگ جو بھی کر رہے ہو، یہی کرنے کے قابل ہیں، جس چیز کیلئے آپ جدوجہد کروگے وہی حاصل کروگے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے متحد ہوکر اپنی قوم کیلئے کام کرو۔
اب نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونے لگا ہے نوجوان آج معاشرے کے مسائل سے بے بہرہ اور لاتعلق نہیں بلکہ وہ جہد و مزاحمت کا استعارہ کا استعارہ بن چکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔