نظریاتی نقطہ نظر سے عاری ذہنیت کا رجحان – سنگت فراز بلوچ

786

نظریاتی نقطہ نظر سے عاری ذہنیت کا رجحان

تحریر: سنگت فراز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نظریاتی نقطہ نظر کیا ہوتا ہے، نظریات کے اقسام اور ان میں سائنس کے عمل دخل کا علم کیونکر جاننا لازمی ہوتا ہے۔ یہ سب غورطلب سائنسی مسئلے ہیں، جن پر شاید ہم کڑی نظر رکھنے سے بری الذمہ ہوگئے ہیں۔ آخر کیوں؟ وہ کیا وجوہات ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے نظریاتی نقطہ نظر شفافیت اور ابہامی کیفیتوں کے مابین سینڈوچ بن کے رہ جاتا ہے۔ اس قسم کے کیفیت میں ایک عام انسان سمیت، کسی نظریئے پر پابند شخص بھی کنفیوژن کا شکار ہوجاتاہے۔

جب اس سوال کا جواب کھوجنے کا خیال آجاتا ہے تو پھر جواب نہ ملنے کا صدمہ اپنی جگہ مگر شحضی قیاس آرائیوں پر مبنی ایک مختص سرکل کے الزامات، گالی گلوچ اور ذاتی حملے کے وہ عبرتناک نتیجے دیکھنے کو لازماً ملے گا، جو کسی بھی فرد کو کسی حد تک مایوسی کی طرف راغب کرنے کا کام سرانجام دیتے ہوئے، تجسس اور افکار کی صلاحیت کو مدھم کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح ہونا چاہئے کہ وہ نظریہ مذہبی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی بھی ہوسکتا ہے۔

مگر یہاں ایک بات سمجھنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے کہ جب بھی کسی نظریہ کی نقطہ نظر کو سمجھنا ہو تو اس خاص قسم کی نظریہ پر بحث ومباحثہ، سوال و جواب، تجسس اور مفروضہ رکھنے کی آزادی پر کھلی چھوٹ ہونا چاہیئے کیونکہ جب بھی کہیں سوالات اٹھتے ہیں وہاں تجسس اور تخلیقی مہارتوں کے دروازے کھلنا شروع ہونگے، تو وہاں نظریہ کی نقطہ نظر کو سمجھنا بھی آسان ہوگا اور ہر عام و خاص تک رسائی میں بھی دشواریاں اور مشکلات کم رہ جائینگے۔

اسطرح اگر نظریہ ہر ایک معاشرتی فرد تک رسائی حاصل کرتا ہے تو یہ کہنا غلط بھی نہیں ہوگا کہ سائنسی طرزِعمل سے نظریہ عوامی حلقوں کیلئے بنا ہوتا ہے اور عوام کا مجموعی لیول تک شراکت بھی مرحلہ وار درجہ در درجہ بڑھکر اسے کامیابی کی طرف سفر کرتا ہوا اپنے راستے متعین کرنے میں مدد کریگی۔ جسے بعدازاں کامیاب جدوجہد اور تاریخی مہم کے نام سے منسوب کرنا آسان ہوگا۔

ویسے کسی بھی معاشرے میں کسی بھی قسم کا نظریہ کہ جب نقطہء نظر کو جانچنے کا ضرورت پڑا تو وہاں کے انفرادی اور شخصی قوت پر مبنی سیاست کے رجحانات، انفرادی واقفیت پر مبنی معاشرتی، سیاسی اور معاشی معاملات کا جائزہ، اجتماعی اور تنظیمی فوقیت پر موجود وسائل کا منصفانہ تقسیم، کمیونیکشن کے اصولی، افادہ اور صنفی رجحانات میں تفریق، سیاسیات میں سائنسی سیاست کا لیول اور مقام ، سیاست میں ویکم فِل یعنی خالی جگہ بھرنے کا جمہوری اور غیر جمہوری انداز میں چناو اور الیکشن کا ٹرینڈ سمیت لیڈران کا سیاسی اور سماجی رویہ، فیصلے لینے کا ساکت سمیت ورکرز سے ان کے توانائی اور قابلیت کے مطابق سرگرمیاں کروانے کا کس حد تک ہنر موجود ہے۔ اِن پر تفتیشی جائزہ کوئی بھی سائنسی علم کا انحصار اور پابند نہیں ہے مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، سچ سننا اور سچ کا ماننا قطعی کتابی اصطلاح نہیں۔ اب رہا عملی صورت میں ہر فورم میں سچ کے دعویدار، نظریات کے پابند، سیاسی رجحانات پر ایک انچ ادھر اُدھر نا ہونے والے غدار، مفرور، غیر سیاسی اور بداخلاق جیسے ٹائٹل سے لیبل کیئے جاتے ہیں۔ جو نتیجتاً ایک سیاسی لابی اور گروہ کے گالی گلوچ کے ساتھ سیاسی اور سماجی طور پر الگ تھلگ رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

دوسری جانب اگر نظریئے کے فقدان پر بات کی جائے تو کسی حد تک اس کے نقصانات کے اثرات مجوعی صورتحال میں اجتماعی زوال اور محرومیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ نظریہ، انسانی فکر اور شعور کی نشوونما کے لیئے اُتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ کسی زندگی کے بقا کے لیے آکسیجن کا ہونا مگر یہ جانتے ہوئے اس المیہ پر غور بھی کرنا چاہئے کہ نظریہ کی عدم موجودگی غور و فکر کے دریچے ملک طور بند کر دیتی ہے، جو بہت ہی بڑی انسانی المیہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر تحریکوں میں اس نظریاتی فقدان پر نفسیاتی اور شعوری انداز میں موقعے پر دھیان نہیں دیا گیا تو نظریہ اور عقل کے مابین پیدا ہونے والے خلا میں مزید فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے، جسکا کا بعدازاں اثرات پوری سیاسی تحریک اور عوامی ترقیاتی اور ارتقائی عوامل پر پڑینگے۔

تو کسی بھی قسم کا نظریہ، چونکہ ہم بذاتِ محکوم قوم برطانوی حکمتِ عملی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اکثریت بلوچ کا نعرہ قوم پرست نظریہ کا پابند ہے، جو بلاشبہ ایک سائنسی طرزعمل پر سیاست کرنے کا نام ہے، اس لئے اس ستر سالہ قومی تحریکِ سیاست میں اس پہلو پر بہت تحقیق اور مفروضہ پیش کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا تاکہ ایک طرف لٹریچر کو فوقیت اور تقویت ملیں تو دوسری طرف بلوچ کا اجتماعی نفسیات اس حوالے سے بھی عیاں ہوسکیں۔ کیونکہ اگر غیرجانبدارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر تحقیقاتی مطالعہ، ریسرچ اور مفروضے کے فضاء کو ترویج دی جائیں تو یقیناً اس سے بلوچ اور بلوچ کے سیاسی تحریک کو بہت سے افادہ حاصل ہوسکتے ہیں۔

فطرتاً انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب محض ایک ہی بنیاد پر عطا کیا گیا، اور وہ ہے عقل۔ اور حقیقی معنوں پر اگر دیکھا جائے تو عقل و شعور کی غیرموجودگی انسان اور حیوان میں موجود فرق کو مٹانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ عقل کو استعمال کرکے اس سے افادہ نکالنا تبھی ممکن ہوگا جب عقل و خرد کو درستگی کے ساتھ ساتھ عملی صورت میں علمی حوالے سے متاثر کن شکل میں عمل میں لایا جائے۔ اور جب کسی بھی نظریہ کی بات ہوتی ہے تو نظریہ عقل کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے. عقل کو اگر نظریہ کا تابعی نا سمجھا جائے اور ایک نظریہ کا پابند نا ہو سکے تو نتیجہ بے معنی اور بے سود ہی ہوگا۔ جس سے نظریات سے عاری رجحانات اور فضاء کو تقویت ملے گا، تو رہیگا سیاسی تحریک نا ہی سماجی و معاشی ترقی کا مہم۔

نظریے کے بذاتِ خود مختلف اقسام ہیں، سیاسی نظریئے سے لیکر سائنسی نظریئے تک کئی بھی قسم کے اقسام اس گلوبل ولیج میں جنم لے چکے ہیں۔ بس منشور اور متعین شدہ ایجنڈے کو زیرغور رکھ کر عیاں ہوسکتا ہے کہ نظریہ کس قسم کا ہے اور یہ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے کہ وہ نظریہ واقعی اپنے طے شدہ معنویت کے مطابق ہیکہ نہیں۔

اس لیے مختلف انسان اپنے فہم و فراست کی بنیاد پر مختلف نظریات کی تشکیل کرتے نظر آتے ہیں، نظریہ کو پیش کرنے والے کو اپنے نظریہ سے ایسے ہی محبت کرنا چاہیے جیسے تخلیق کار اپنی تخلیق سے، فنکار اپنے فن سے، اور مصور اپنے بنائی تصویر سے۔ اور سیاسی نظریہ اگر اس قسم کے لگاو اور لگن سے محرومیت کا شکار ہے تو وہاں سیاسی خلا کا ابھارنا لازم ہوتا جاتا ہے۔ تحریکوں میں اس خلا کا کم سے کم بھی گنجائش موجود اور برداشت نہیں ہوسکتا کیونکہ تحریک ایک ایک مضبوط اور متحرک نظریہ کے پابند ہوتی ہے، جہاں عقل اور شعور دونوں کا ملاپ اور منجمند ہونا ہی ایک واضح نقطہ نظر کو جنم دیتا ہے جو کہ اشتراکی عوامل سے بھرپور لائحہ عمل کا پیداوار ہوتا ہے۔ آج کل نظریاتی سیاست کا مفہوم جاننا ایک ارتقائی عمل کا حصہ بن چکا ہے، نظریاتی سیاست کو کچھ اسطرح بیان کیا جاتا ہیکہ کسی بھی سیاسی جماعت اجتماعی اور قومی مفاد کیلئے نصب العین متعین کرے اور اسکے حصول کیلئے جدوجہد کو فرض سمجھا جائے، فرض اس وقت فرض کہلوایا جاتا ہے، جب لیا ہوا عہدوپیمان یعنی آئینی آرٹیکلز پر عملی خدوحال مضبوط اور انفرادی خواہشات سے عاری ہو۔

سائنس ڈریکٹ کے مطابق سیاسی نظریہ کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے،
A political ideology is a set of ideas, beliefs, values and opinions, exhibiting a recurring pattern, that competes deliberately as well as unintentionally over providing plans of action for public policy making in an attempt to justify, explain, contest or change the social and political arrangements and processes of a political community.
بہت ہی مشکل ہوگا ہمارے لئے اگر ہم اس نظریاتی بیانیہ کو بلوچ سیاسی تحریک سے مشابہت میں لیکر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کریں۔ قوم پرستی کا نعرہ تو لگانا آسان ہے مگر سیاسی حوالے میں اسے ایک سائنسی نقطہ پر لاکر ٹہرانا بہت ہی مشکل اور نا ممکن عمل سمجھا جاتا ہے، جب روایت اور سوشل کسٹمز نظریہ سے بڑھکر حاصلِ اہمیت ہوں۔

نظریاتی لیڈر، ورکر اور سیاسی ایکٹوسٹ تنظیم یا پارٹی سے ذاتی و انفرادی فائدے اُٹھانے کے بجائے تنظیم اور پارٹی کیلئے قربانیاں دیتا ہے، اور وہ فرد اپنی ذہنی، معاشی، سماجی اور جیالوجیکل ضرورتیں صرف فورم، پارٹی اور تنظیم کی فعالیت، شفافیت، متنازعہ نا ہونے کے سامنے نظریات کی فراہم کردہ آکسیجن کے طور پر صرف ہوتے ہیں جو ایک پولیٹکل ورکر اور ایکٹوسٹ کے سیاسی مضبوطی کے سبب بن جاتے ہیں۔

نظریاتی سیاستدان سوچ سمجھ کر پورے ادارک کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں پھر ان پر ڈٹ جاتے ہیں، اور سیاستدان جب اپنی پولٹیکل تجربات اور مشاہدات سے ورکرز کو ساتھ لیکر چلتا ہے تو نظریے مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں ورنہ بہت ہی مشکل ہوگا کہ سیاستدانوں یا لیڈران کا پارٹی اور تنظیمی ایکٹوسٹوں سے روابط پائیدار ہوسکیں۔ اگر استقامت اور استقلال سے ذہنی صلاحیتوں کو عمل میں لایا جائیں تو کامیاب ریاستوں تنظیموں اور ماس پارٹیوں میں نظریاتی سیاست ہمیشہ حاوی رہتی ہے پھر وہاں عموماً قومی نصب العین نظروں سے اوجھل نہیں ہو پاتا، ذاتی اور گروہی مفادات قومی مفادات کے تابع رہتے ہیں اور جب توازن بگڑ جاتا ہے تو سسٹم یعنی کہ تنظیمیں اور پارٹیاں جمود اور انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس سے صرف اور صرف زاول ہی مقدار بن جاتاہے۔

نظریاتی نقطہ نظر کا طفلانہ رجحان، سیاست سے بڑھکر سب انفرادی ضرورتوں کا سیاسی ہونا، تنظیم اور پارٹی میں فرد کا بالادستی، دوستی پر مبنی سوشل اور انفرادی رابطے، صنفی برابری کا حقوق کا مسخ شدہ رجحان، فردی مفادات کا بڑھتی ہوئی لہر اور نظریہ کا دم توڑتی ہوئی کیفیت کسی بھی معاشرے میں موجود تنظیم اور پارٹی میں نظریاتی نقطہ نظر سے عاری ذہنیت کے رجحانات کے بس چند ہی مثالیں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔