میں کیا ہوں اور کیوں ہوں؟
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
انسان نا صرف اپنے اردگرد کے ماحول سے شناسہ ہوتا ہے، بلکہ وہ خود سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ “میں ہوں’ یہی اسے باقی جانداروں سے مختلف کرتا ہے، خود شناسی ہی اصل میں شعور ہے۔ خود شناسی اپنی ذات کی جانکاری ہے، اپنے افعال، اپنے جسم اور ذہن کی جانکاری۔
خود شناسی ہمیشہ سے فلسفے اور نفسیات کا بنیادی سوال رہا ہے، قدیم یونانی فلسفے کا بنیاد ” ڈیلفک میکسم” ( خود کو جانو) ہو یا ڈیکارٹ کا ” میں سوچتا ہوں، اس لیئے میں ہوں” خود شناسی کے متعلق ہیں۔
ہیگل کافلسفہ “خود شناسی self-consciousness انسان کی تاریخ اور فطرت کی غایت purpose خودشناسی ہے۔ تاریخ اسی مقصد کا اظہار ہے۔ انسان میں خوشناسی self-consciousness ظہور پذیر ہے۔
“انسان اپنی ذات کی اس طرح شناخت نہیں کرسکتا ہے، جس طرح دوسرے لوگ کرسکتے ہیں” کیا یہ ایک حقیقت ہے؟ دوسروں کی خامیاں نظر آنا، خود کی نظر سےغائب خودشناسی کی قلت یا قبول نہ کرنے والا ذہینیت ہوسکتا ہے؟ اوپر جو اڑ رہا ہے، وہ کبوتر ہے لیکن میں کہتا ہوں کبوتر نہیں باز ہے، پھر وہ کبوتر ثابت ہو پھر بھی میں نہیں مانوں، اب کس حد تک میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں غلط ہوں؟ نہیں جانتا ہوں تو خود شناسی کی قلت ہے، سب جان کر نہیں مانتا ہوں تو پھر خود شناسی کی قلت نہیں بلکہ میرا ایگو ہے اور ایگو کا بھی منفی پہلو ہوگا۔ اور منفی پہلو کا جنم خود کم علمی و تنگ نظری کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
کم علم و تنگ نظر سماج میں ایگو کا منفی پہلو آپ کو زندگی کے ہر موڑ پر آسانی سے ملے گا، اگر علم و دوراندیشی میں خود شناسی ہے، تو خودشناسی میں خود علم اور دوراندیشی ہے۔ جہاں بھی علم و عمل اور دوراندیشی کی سطح و مقام بلند ہوگا، وہاں ایگو کا منفی پہلو اس حد تک انسان کے ذہن پر سوار نہیں ہوتا ہے، جس حد تک کم علم ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
علم نفسیات کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ایگو کا منفی پہلو اس بنیاد پر بھڑک اٹھتا ہے کہ میں اگر غلط ہوتا ہوں، غلطی کو مانتا ہوں، میرا رتبہ، مقام، عزت نفس مجروع و مسخ ہوگا۔ کبوتر حقیقت میں کبوتر ہی ہے لیکن کبوتر کہنے والے کو ضد، غصہ، نفرت، بغض اور حسد کی بنیاد پر کبوتر کی حقیقت سے انکار کرکے اس کو باز ماننا پڑے گا۔
خود کی بنائی گئی عزت، رتبہ، اسٹیٹس کی مجروح ہونے و مسخ ہونے کا خیال اس وقت تک ہرگز دل و دماغ میں پیدا نہیں ہوگا جب علم و دوراندیشی کی بلندی پہلے سے دل و دماغ میں موجود ہو۔
حالانکہ کردار، مقام، رتبہ، عزت وغیرہ کو ایگو کا منفی پہلو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا بلکہ مسخ اور زوال کا اہم ذریعہ بنتا ہے اصل میں علم و عمل و دوراندیشی کسی بھی انسان کے کردار و مقام کی بلندی و عروج کا سیڑھی ہوتا ہے جو ایگو کے منفی پہلو کو نزدیک آنے نہیں دیتا ہے۔
عمومی طور پر “ایگو” ہمارا وہ حصہ ہے، جو ہمارے معروض سے جڑے معلومات کی جانچ پڑتال کرکے ہمارے ذات اور ذاتی مفادات کے حق میں بہترین ممکن اور حقیقت پسندانہ فیصلے لیتا ہے، اس لیئے ہم ” ایگو” کو اپنی حقیقی پہچان سمجھ لیتے ہیں، اور اس کے بابت اتنا حساس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ” ایگو” کے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں تو، ہم بعض اوقات فرق کرنے سے قاصر ہوکر، اس منفی ایگو کو بھی اپنی حقیقی پہچان سمجھ کر اسکا مکمل دفاع کرتے ہیں۔
علم و شعور، آپ کے ایگو کے برعکس، آپکے پہچان کے دائرے کو وسیع کردیتا ہے۔ جتنا وسیع علم و شعور ہوگا، پھر ذہن معروض سے جڑے معلومات کی جانچ پڑتال کے بعد، فیصلہ محض ذاتی فائدے و مفاد کے بجائے اجتماعی مفادات میں ڈھونڈے گا۔ پھر ہم اپنی پہچان ” ایگو” سے باہر ڈھونڈتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی، قومی، یا نسل انسانی کے مفاد میں اپنی ذات کی قربانی کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور دوسری طرف جب “منفی ایگو” کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو پھر آپکو اس بات میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ کوئی آپکی تصحیح کرتے ہوئے کبوتر کو باز کہے۔ پھر یہیں سے علم، شعور، تصوف، روحانیت، فلسفے اور خود آگاہی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔