میں بےضمیر کیوں ہوں؟
تحریر: محمّد آفتاب محسود
دی بلوچستان پوسٹ
روزمرہ کی زندگی میں اگر انسان آنکھیں کھول کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے، لوگوں کو دیکھے، حالات جانچے،غرباء کے دکھ درد اور ان پر لاگو کی گئی غلط پالیسیاں جاننے کی صلاحیت رکھے اور مظلوم طبقے پر اثرکردہ مظالم دیکھے تو اپنے آپ کو بےضمیر پاتا ہے۔ ہر موڈ پر اپنے آپ کو بےضمیر پاتا ہے۔ آپ سوچینگے کیسے؟
آپ اپنے کام کاج کے لئے دفتر جا رہے ہو اور راستے میں ایک چڑیا درخت سے نیچے گِر کر زخمی ہوا ہو، آپ کے دل میں رحم تو پیدا ہو گیا لیکن آپ نے اس کی مرہم پٹی کے بندوبست کا اس لئے نہیں سوچا کیونکہ آپ آفس سے لیٹ ہو جاوگے چلو یہ مثال تو جانوروں سے سلوک اور اپنی بے ضمیری تلاش کرنے کی ہوئی۔ چونکہ ہم انسان ہیں اور زیادہ تر انسانوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو اب آتے ہیں انسانوں کے ساتھ روا رویے کی طرف ۔
بچپن سے ہم یہ سنتے آرہے ہیں کہ انسان کو باقی تمام مخلوقات سے افضل بنایا گیا ہے میں تو جب یہ جملہ سنتا ہوں تو اندر سے ایک معصومانہ قہقہہ لگاتا ہوں، وہ انسانوں کو بنانے والے خدا پر نہیں بلکہ خود انسانوں پر ۔ جب ایک انسان یا انسانوں کا ایک گروہ کسی ظلم کا شکار بنتا ہے تو میں دیکھتا ہوں اور ظلم کو ظلم کہنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا ،ظلم کو ظلم ہی کہوگے ظلم کو آپ ورزش یا کھیل کا نام تو نہیں دے سکتے لیکن میں دیتا ہوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں میں انسان ہو کر بھی دوسرے انسانوں سے ڈرتا ہوں، میں خدا سے تو نہیں ڈرتا کتنی نزاکت سے جھوٹ بولتا ہوں، دھوکہ دیتا ہوں کسی کا حق مارتا ہوں حرام خوری کرتا ہوں لیکن انسان سے ڈرتا ہوں انسان کے سامنے بولنے سے ڈرتا ہوں ظلم کو ظلم کہنے سے ڈرتا ہوں۔ اب یہاں پر بےضمیری اور باضمیری کا موازنہ کرنا آپ کا کام ہے؟ کوئی باضمیر شخص پہلے تو مظلوم پر ظلم کرنے سے روکیگا اگر یہ نہ کر سکا تو مظلوم کو بچانے کی کوشش کریگا اور اگر یہ بھی نہ کر سکاتو کم از کم مظلوم پر ظلم ھوتے دیکھنے کے بعد آواز تو اٹھائےگا ؟ اور اگر آواز بھی نہ اٹھا سکوں تو کیا مجھ میں اور دریا میں بہتے ہوئے مچھلی، ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے اور گھر میں رکے ہوئے خالی برتن میں کوئی فرق ہے؟
میں نقلی خیالات اور پست احساسات کا حامل شخص اور کر بھی کیا سکتا ہوں، مجھے اپنے گھر میں رہنے والوں کی فکر تو ہوتی ہے لیکن باہر فوٹ پاتھ پر سونے والوں کی ، مظلوموں کی ، ان لوگوں کی جن کی اپنی آواز نہیں ہوتی اور ان لوگوں کی جو بولنا تو چاہے لیکن بول نہ سکے، کی فکر نہیں ہوتی۔
آج انتہائی افسوس کے ساتھ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس سماج کا سب سے اعلیٰ بےضمیر آدمی ہوں میرے ضمیرکو بری طرح سے قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ میں نے کیسے سماج میں پرورش پائی ہے جو اس موڑ پر آپہنچا ہوں ؟
آخر کب میرا ضمیر جاگیگا ؟
آخر کب میں اپنے آپ کو انسان کہنے کے قابل بنوں گا ؟
کیا یہ ڈگرياں جو میں لے رہاہوں یہ اس حالت میں میری کام آینگی ؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔