میڈیکل کے طلباء کے مصائب
ٹی بی پی اداریہ
بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈکل سائنسز ( بی یو ایچ ایم ایس) کا قیام دسمبر 2017 کو عمل پذیر ہوا، اور بعد ازاں بولان یونیورسٹی کو بلوچستان کے تمام میڈیکل کالجز میں طلباء کے داخلوں کی ذمہ داری بھی دی گئی، ان کالجوں میں، مکران میڈیکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج، لورلائی میڈیکل کالج اور بولان میڈیکل کالج شامل ہیں۔ جبکہ واحد یونیورسٹی بی یو ایچ ایم ایس ہے۔
لیکن ان اداروں میں تعلیم حسب معمول نہیں چل رہا ہے، میڈیکل کے طلباء، خاص طور پر بولان میڈیکل کالج کے طلباء گذشتہ دو ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ ان احتجاجوں کے پیچھے متحرک طلباء تنظیم، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بیساک) کے ایک بیان کے مطابق بولان یونیورسٹی کے قیام کے بعد بعد ٹیوشن فیس دس ہزار سے بڑھا کر اٹھاسی ہزار کردی گئی ہے اور ہاسٹل فیس پانچ ہزار سے بڑھا کر چھبیس ہزار کردی گئی، جبکہ دوسری جانب گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے طلباء کے اسکالر شپس بھی روک دیئے گئے ہیں۔
بائیں بازو کے قوم پرست طلباء جماعت، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کے نجکاری کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔
گذشتہ دنوں 12 فروری کو بولان میڈیکل کالج کے تمام طلباء تنظیمیں، بشمول ملازمین، اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجاً بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنے میں بیٹھ گئے۔ بعد ازاں دیکھا گیا کہ انکے مطالبات پر کان دھرنے کے بجائے، انکے احتجاج کو حکومت نے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی، بہت سے طلبہ کو گرفتار کیا گیا اور طالبات کو زدوکوب کیا گیا۔
کالج کی ایک طالبہ ماہ رنگ بلوچ، جس نے اسی رات بلوچستان کے صوبائی وزیر تعلیم سے ملاقات کی نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وزیر تعلیم نے اسے اپنے دفتر سے یہ کہتے ہوئے نکال دیا کہ وہ ایک خاتون ہے اور بلوچستان کی خواتین روڈوں پر نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بیٹھتی ہیں۔
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ ایک وزیر تعلیم، جسکا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ وہ تعلیم کیلئے کام کرے اور طالب علموں کے مسائل حل کرے وہ مبینہ طور پر طالبات کی بے عزتی کرتا ہے، اور حکومت جسکا کام شہریوں کی زندگی آسان بنانا ہوتا ہے، وہ انکے خلاف طاقت کا استعمال کررہا ہے۔
متعلقہ حکام کو بلوچستان کے طالب علموں اور خاص طور پر میڈیکل کے طلباء کے مسائل کو درخور اعتناء جان کر سنجیدگی سے انکے حل کی کوشش کرنا چاہیئے۔