مرکزی خیال اور بے مقصد دانشورانہ شور و غل – شہیک بلوچ

551

مرکزی خیال اور بے مقصد دانشورانہ شور و غل

تحریر۔ شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی مرکزی خیال کو لے کر لکھنے کی کوشش میں سرسری بھاگم بھاگ سے بچنے کے لیے کم از کم علمی طور پر باریکیوں سے آگاہی اس حد تک ہو کہ مرکزی خیال فراموش نہ ہو، بے مقصد لفاظی شور و غل میں مایوسی کا اظہار تاریخی عمل کے شعور سے نابلد ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ہم جس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں، ہم جس قوم کی اجتماعی فکر کو لے کر برسرپیکار ہیں، ہماری تمام تر مجموعی صورتحال میں ہمارا اپنا کردار کیا ہے اور ہم بغیر کسی مایوسی یا بدگمانی کے اس صورتحال کو کیسے بدل سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں وژن کی ضرورت ہے۔ بغیر کسی وژن کے، بغیر کسی نظریہ کے، انسان نا ہی تاریخی عمل کو سمجھ سکتا ہے ناہی وہ اپنا تاریخی کردار ادا کرسکتا ہے۔

سقراط واضح تھا وہ ایک استاد تھا اس کے سوالات واضح تھے، وہ ہمارے دانشوروں کی طرح مایوسی پھیلانے والی باتوں کے بجائے جستجو پیدا کرنے والے سوالات کی مشق کراتا تھا۔

ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے اب تک اس معیار تک خود کو نہیں پہنچایا، جہاں باشعور اقوام نے خود کو پہنچایا ہے۔ ہمارے نیم حکیم دانشور قومی تحریک کے لیے وبال جان سے کم نہیں کیونکہ ان کی غیر وژنری تحریروں میں جس مایوسی کا اظہار ہے وہ کسی بھی مثبت سمت جانب راہ دکھانے سے قاصر ہے۔ وہ ذاتی مایوسیوں کااظہار کرتے وقت زمینی حقائق کو بھول جاتے ہیں، وہ اپنے نفسیاتی بیماریوں کو اجتماعی قرار دے کر انہیں لاعلاج قراردیتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ان کے اپنے ذات تک محدود ہے۔

بلوچ و بلوچستان کے الجھن کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جس وژن کی ضرورت ہے، جس علمی گہرائی کی ضرورت ہے اور جس دانشورانہ مشق کی اس سے ہمارا دانشور دور اپنے خول میں بند ہے۔ اس نے خود کو مفلوج کردیا ہے، اس نے رہنمائی کا کام چھوڑ دیا ہے اب وہ ایک ٹہرے پانی کی مانند ہے جو تاریخی عمل کے بہاو سے محروم ہے۔ دانشور جس کا کام بقول ایڈورڈ سعید کے ہلچل مچانا ہے بذات خود ان امکانات کو معدوم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو ہلچل کی لہروں میں ارتعاش پیدا کررہے ہیں۔ ہلچل پیدا کرنے کے لیے جس وژن کی ضرورت ہے اس سے ہمارا دانشور خود کو محروم کرچکا ہے۔

نوابادیاتی نظام کے پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر رہ کر کس طرح قوم کی تربیت یا نمائندگی کی جاسکتی ہے؟ وہ مرض جو غلامی ہے اس کے علامات میں سے ایک کو لے کر نوحہ خوانی کیا اس مرض کے علاج کا سبب بن سکتا ہے؟

سوچ کی وضاحت لازمی ہے اور نوآبادیاتی نظام کے پس منظر میں بلوچ قوم و قومی تحریک کا باریک بینی سے مشاہدہ، کمزوریاں اور خوبیاں ہر پہلو کا تجزیہ لازم ہے لیکن تجزیہ کرتے وقت ڈاریکشن لازم ہے نہیں تو بھٹکنے سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوگا۔

جس دانشور کو نواب مری کے بعد رہبر نہیں ملتا وہ تاریخ کے علم سے ناواقف ہے کیونکہ ہر دور اپنا لیڈر ضرور پیدا کرتا ہے کیونکہ فطرت خلا کو ناپسند کرتا ہے۔

بلوچ جہدکاروں کی عملی کوششوں کے باعث اور بذات خود بابا مری کے اپنی تعلیمات کے مطابق اب بلوچ جدوجہد شخصیات کے سحر سے نکل چکی ہے، قبائلی رجحانات مسترد ہوچکے ہیں اور اب اداروں کے تشکیل کے ابتدائی خدوخال نظر آرہے ہیں۔

بابا مری محرک نہیں تھا نا ہی اکبر خان یا پھر بالاچ اور نا ہی استاد اسلم بلکہ جدوجہد ان سے پہلے بھی تھی جب انگریز بلوچ گلزمین پر قابض ہوئے۔ جب پرتگیز بلوچ ساحل پر سامراجی شکنجے ڈال رہا تھا تب بھی جدوجہد چل رہی تھی۔

اب بھی جدوجہد شخصیات کے بغیر چل رہی ہے اور آگے ماضی کے تجربات سے لیس ہوکر مزید توانا صورت میں سامنے آئیگی۔

اب تحریک کو ماضی کے پچھتاوں یا مایوسی کی باتوں کی ضرورت نہیں بلکہ درست سمت کی ضرورت ہے۔ یہ صبر آزما مرحلہ ہے کیونکہ ڈی کالونائیزیشن کے تاریخی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نسل در نسل جدوجہد درکار ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔